Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: (It is permissible) to offer Salat (prayer) on roofs, a pulpit or wood)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے فرمایا کہ حضرت امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہؓ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی ( اور وہ نیچے تھا ) اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے برف پر نماز پڑھی۔تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری قدس سرہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان صورتوں میں نماز درست ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ نجاست کا دورکرنا جو نمازی پر فرض ہے اس سے یہ غرض ہے کہ نمازی کے بدن یا کپڑے سے نجاست نہ لگے۔ اگردرمیان میں کوئی چیز حائل ہو جیسے لو ہے کا بمبا ہو یا ایسا کوئی نلوہ ہو جس کے اندر نجاست بہ رہی ہو اور اس کے اوپر کی سطح پر جہاں نجاست کا کوئی اثر نہیں ہے کوئی نماز پڑھے تو یہ درست ہے۔ حضرت ابوہریرہ والے اثر کو ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصورنے نکالا ہے۔
382.
حضرت ابوحازم ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد ؓ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ (نبی ﷺ کا) منبر کس چیز سے تیار کیا گیا تھا؟ وہ بولے کہ اب لوگوں میں اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ مقام غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا جسے رسول اللہ ﷺ کے لیے فلاں عورت کے فلاں غلام نے تیار کیا تھا۔ جب وہ تیار ہو چکا اور مسجد میں رکھ دیا گیا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہی۔ دیگر لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، پھر آپ نے قراءت کی اور رکوع کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور پیچھے ہٹ کر زمین پر سجدہ کیا۔ (دونوں سجدے ادا کرنے کے بعد) پھر منبر پر لوٹ آئے، پھر قراءت کی اور رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ منبر نبوی کا یہی قصہ ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا: مجھ سے امام احمد بن حنبل ؒ نے اس حدیث کے متعلق سوال کیا اور کہا: میرا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں سے بلند جگہ پر تھے، اس لیے اس حدیث کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں کہ امام مقتدیوں سے بلند جگہ پر ہو۔ علی بن مدینی ؒ کہتے ہیں: میں نے (احمد بن حنبل) سے کہا کہ سفیان بن عیینہ سے اس روایت کے متعلق بہت سوال کیا جاتا تھا، آپ نے ان سے یہ روایت نہیں سنی؟ تو انھوں نے فرمایا: نہیں (میں نے ان سے اس روایت کا سماع نہیں کیا )۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
375
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
377
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
377
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
377
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرضیت نماز کے بیان کے بعد شرائط نماز کا آغاز کیا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ستر عورۃ کی شرط کو پہلے بیان کیا کیونکہ یہ شرط خارج صلاۃ اور داخل صلاۃ دونوں حالتوں میں ضروری ہے اب پہلی شرط سے فراغت کے بعد دوسری شرط محل صلاۃ کی طہارت کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس شرط کا حاصل یہ ہے کہ نمازی جہاں کھڑا ہے وہ جگہ اور جس جگہ سجدہ ہو وہ مقام پاک ہو نا چاہیے خواہ ماحول کتنا ہی گندہ اور نجاست آلود ہو۔ ایسی جگہ نماز ادا کرنے سے فرض ادا ہو جائے گا قطع نظر اس سے کہ وہ پاک جگہ اونچی ہو یا نیچی ، ہموار ہو یا نا ہموار، گڑھا ہو یا ٹیلا ، قطعہ زمین ہو یا بالا خانہ، مکان کی چھت ہو یا منبر کے درجات، خواہ جنس ارض ہو یا کسی اور چیز کا فرش ، الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں بہت توسع ہے جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا صرف نماز کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ: (وَجُعِلَتْ لي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا) کا مفہوم یہ نہیں کہ زمین پر ہی سجدہ ہونا چاہیے بلکہ اگر زمین اور نماز کے درمیان چھت ، منبر یا لکڑی کا تختہ ہو تو یہ سب صورتیں نماز کے لیے جائز قراردی جائیں گی بشرطیکہ وہ پاک ہوں اگر جگہ پاک ہے تو چھت ، اور سطح زمین کا کوئی فرق نہیں چونکہ بعض اسلاف سے الراح (تختوں) اور (أخشَاب) (لکڑیوں )پر نماز کی کراہت منقول ہوئی ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو عنوان میں صراحت کرنی پڑی کہ لکڑی کے تختوں پر بھی نماز جائز ہے۔
حضرت ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے فرمایا کہ حضرت امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہؓ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی ( اور وہ نیچے تھا ) اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے برف پر نماز پڑھی۔تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری قدس سرہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان صورتوں میں نماز درست ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ نجاست کا دورکرنا جو نمازی پر فرض ہے اس سے یہ غرض ہے کہ نمازی کے بدن یا کپڑے سے نجاست نہ لگے۔ اگردرمیان میں کوئی چیز حائل ہو جیسے لو ہے کا بمبا ہو یا ایسا کوئی نلوہ ہو جس کے اندر نجاست بہ رہی ہو اور اس کے اوپر کی سطح پر جہاں نجاست کا کوئی اثر نہیں ہے کوئی نماز پڑھے تو یہ درست ہے۔ حضرت ابوہریرہ والے اثر کو ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصورنے نکالا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوحازم ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد ؓ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ (نبی ﷺ کا) منبر کس چیز سے تیار کیا گیا تھا؟ وہ بولے کہ اب لوگوں میں اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔ وہ مقام غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا جسے رسول اللہ ﷺ کے لیے فلاں عورت کے فلاں غلام نے تیار کیا تھا۔ جب وہ تیار ہو چکا اور مسجد میں رکھ دیا گیا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر تحریمہ کہی۔ دیگر لوگ بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، پھر آپ نے قراءت کی اور رکوع کیا اور لوگوں نے بھی آپ کے پیچھے رکوع کیا، پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور پیچھے ہٹ کر زمین پر سجدہ کیا۔ (دونوں سجدے ادا کرنے کے بعد) پھر منبر پر لوٹ آئے، پھر قراءت کی اور رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ منبر نبوی کا یہی قصہ ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا: مجھ سے امام احمد بن حنبل ؒ نے اس حدیث کے متعلق سوال کیا اور کہا: میرا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں سے بلند جگہ پر تھے، اس لیے اس حدیث کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں کہ امام مقتدیوں سے بلند جگہ پر ہو۔ علی بن مدینی ؒ کہتے ہیں: میں نے (احمد بن حنبل) سے کہا کہ سفیان بن عیینہ سے اس روایت کے متعلق بہت سوال کیا جاتا تھا، آپ نے ان سے یہ روایت نہیں سنی؟ تو انھوں نے فرمایا: نہیں (میں نے ان سے اس روایت کا سماع نہیں کیا )۔
امام بخاری کہتے ہیں: حسن بصری نے برف اور پل پر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے اگرچہ اس کے نیچے یا اس کے اوپر یا آگے پیشاب بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور پیشاب کے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے امام کے پیچھے مسجد کی چھت پر نماز اد اکی۔ اور حضرت ابن عمر ؓ نے برف پر نماز پڑھی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا۔ کہا کہ لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی ؓ سے پوچھا کہ منبر نبوی کس چیز کا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب ( دنیائے اسلام میں ) اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ منبر غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا۔ فلاں عورت کے غلام فلاں نے اسے رسول اللہ ﷺ کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ تیار کر کے ( مسجد میں ) رکھا گیا تو رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور آپ نے قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور تکبیر کہی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں اور رکوع کیا۔ آپ کے پیچھے تمام لوگ بھی رکوع میں چلے گئے۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ پھر زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر دوبارہ تشریف لائے اور قرات رکوع کی، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قبلہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے پیچھے لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ یہ ہے منبر کا قصہ۔ امام ابوعبداللہ بخاری ؒ نے کہا کہ علی بن عبداللہ مدینی ؒ نے کہا کہ مجھ سے امام احمد بن حنبل ؒ نے اس حدیث کو پوچھا۔ علی نے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نماز میں لوگوں سے اونچے مقام پر کھڑے ہوئے تھے اس لیے اس میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیے کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو۔ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ سفیان بن عیینہ سے یہ حدیث اکثر پوچھی جاتی تھی، آپ نے بھی یہ حدیث ان سے سنی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔
حدیث حاشیہ:
غابہ مدینہ کے قریب ایک گاؤں تھا۔ جہاں جھاؤ کے درخت بہت عمدہ ہوا کرتے تھے۔ اسی سے آپ کے لیے منبر بنایا گیا تھا۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی نکلا کہ اتنا ہٹنا یا آگے بڑھنا نماز کو نہیں توڑتا۔ خطابی نے کہا کہ آپ کا منبرتین سیڑھیوں کا تھا۔ آپ دوسری سیڑھی پر کھڑے ہوں گے تواترنے چڑھنے میں صرف دوقدم ہوئے۔ امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث علی بن مدینی سے سنی تواپنا مسلک یہی قرار دیا کہ امام مقتدیوں سے بلند کھڑا ہو تواس میں کچھ قباحت نہیں۔ سننے کی نفی سے مراد یہ کہ پوری روایت نہیں سنی۔ امام احمدنے اپنی سندسے سفیان سے یہ حدیث نقل کی ہے اس میں صرف اتنا ہی ذکر ہے کہ منبر غابہ کے جھاؤ کا بنایاگیا تھا۔ حنفیہ کے ہاں بھی اس صورت میں اقتدا صحیح ہے بشرطیکہ مقتدی اپنے امام کے رکوع اور سجدہ کو کسی ذریعہ سے جان سکے اس کے لیے اس کی بھی ضرورت نہیں کہ چھت میں کوئی سوراخ ہو۔ ( تفہیم الباری، جلددوم، ص: 77 )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hazim (RA): Sahl bin Sa'd was asked about the (Prophet's) pulpit as to what thing it was made of? Sahl replied: "None remains alive amongst the people, who knows about it better than I. It was made of tamarisk (wood) of the forest. So and so, the slave of so and so prepared it for Allah's Apostle. When it was constructed and place (in the Mosque), Allah's Apostle (ﷺ) stood on it facing the Qibla and said 'Allahu Akbar', and the people stood behind him (and led the people in prayer). He recited and bowed and the people bowed behind him. Then he raised his head and stepped back, got down and prostrated on the ground and then he again ascended the pulpit, recited, bowed, raised his head and stepped back, got down and prostrate on the ground. So, this is what I know about the pulpit." Ahmad bin Hanbal said, "As the Prophet (ﷺ) was at a higher level than the people, there is no harm according to the above-mentioned Hadith if the Imam is at a higher level than his followers during the prayers."