تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس باب میں ثابت کیا ہے کہ جس طرح نماز زمین یا اس کی جنس پر درست ہے غیر جنس ارض پر بھی درست ہے، خواہ وہ بستر ہو یا کوئی فرش قطع نظر اس سے کہ وہ بہترین ہو یا گھٹیا، چونکہ بعض اسلاف سے ان پر نماز پڑھنے کا انکار ثابت ہے، وہ عمدہ قالین یا وہ بستر جس میں روئی زیادہ ہو ان پر نماز ادا کرنا مکروہ قراردیتے تھے۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ روایت لا کر ان کے موقف کی تردید كی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ اگرچہ بعض حضرات تاویل کرتے ہیں کہ پاؤں کو دباتے وقت اس پر کپڑا ہوتا تھا، لیکن یہ تاویل بعید ہے۔ پہلی حدیث میں بستر پر نماز پڑھنے کی صراحت نہ تھی۔ اس لیے دوسری روایت پیش کی کہ آپ بستر پر نماز پڑھتے تھے۔ اگرچہ اُم المومنین عائشہ ؓ کے آگے لیٹنے میں اشارہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ سونے کے بستر پر نماز پڑھ رہے تھے، تاہم تیسری روایت میں اس کی بھی صراحت موجود ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پیشانی زمین پر رکھنا ضروری نہیں، البتہ پاؤں کا جمانا اور ہاتھوں اور پیشانی کا کسی پاک چیز پر ٹکانا ضروری ہے، ہاں ایسے بستر یا قالین جو زیب و زینت کی وجہ سے دل کو اپنی طرف متوجہ کردیں ان پر نماز ادا کرنا پسندیدہ نہیں، تاہم اگر ان پر نماز پڑھ لی جائے تو فرض ادا ہو جائے گا۔ حضرت عائشہ ؓ اپنے اس معمول کے متعلق ایک عذر پیش کرتی ہیں کہ اس وقت مکانوں میں چراغ نہ تھے، کیونکہ چراغ ہونے کی صورت میں مجھے پتہ چل جاتا کہ آپ کس وقت سجدے میں جا رہے ہیں، اس وقت میں خود ہی پاؤں سمیٹ لیتی، لیکن اندھیرے کے سبب کچھ نظر ہی نہ آتا تھا، اس لیے آپ کو پاؤں دبانے کی ضرورت پیش آتی۔ 2۔ بعض احادیث کے مطابق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بستروں میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:368) امام بخاری ؒ نے یہ روایت پیش کر کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ چنانچہ امام ابو داؤد ؒ نے اس روایت کے بعد اس کے ناقابل حجت ہونے کی علت بھی بیان کی ہے۔ اگر ایسی روایات صحیح ہیں تو امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایات کے مقابلے میں وہ شاذ اور مردود قرارپائیں گی۔ (فتح الباري:637/1) 3۔ ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوئے ہوئے آدمی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا مکروہ نہیں بلکہ جائز ہے۔