Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: (It is permissible) to offer Salat (prayer) on roofs, a pulpit or wood)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے فرمایا کہ حضرت امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہؓ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی ( اور وہ نیچے تھا ) اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے برف پر نماز پڑھی۔تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری قدس سرہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان صورتوں میں نماز درست ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ نجاست کا دورکرنا جو نمازی پر فرض ہے اس سے یہ غرض ہے کہ نمازی کے بدن یا کپڑے سے نجاست نہ لگے۔ اگردرمیان میں کوئی چیز حائل ہو جیسے لو ہے کا بمبا ہو یا ایسا کوئی نلوہ ہو جس کے اندر نجاست بہ رہی ہو اور اس کے اوپر کی سطح پر جہاں نجاست کا کوئی اثر نہیں ہے کوئی نماز پڑھے تو یہ درست ہے۔ حضرت ابوہریرہ والے اثر کو ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصورنے نکالا ہے۔
383.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر گئے تو آپ کی پنڈلی یا کندھا مجروح ہو گیا اور آپ نے ایک ماہ تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی، اس بنا پر اپنے بالا خانے میں تشریف فر ہوئے جس کی سیڑھی کھجور کے تنوں کی تھی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی تیمارداری کے لیے آئے، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ وہ کھڑے تھے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’امام تو اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اسی طرح جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر اس کی اقتدا کرو۔’’ پھر آپ نے انتیس دن پورے ہونے پر بالاخانے سے نزول فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک ماہ الگ رہنے کی قسم کھائی تھی! آپ نے فرمایا: :مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
376
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
378
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
378
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
378
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرضیت نماز کے بیان کے بعد شرائط نماز کا آغاز کیا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ستر عورۃ کی شرط کو پہلے بیان کیا کیونکہ یہ شرط خارج صلاۃ اور داخل صلاۃ دونوں حالتوں میں ضروری ہے اب پہلی شرط سے فراغت کے بعد دوسری شرط محل صلاۃ کی طہارت کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس شرط کا حاصل یہ ہے کہ نمازی جہاں کھڑا ہے وہ جگہ اور جس جگہ سجدہ ہو وہ مقام پاک ہو نا چاہیے خواہ ماحول کتنا ہی گندہ اور نجاست آلود ہو۔ ایسی جگہ نماز ادا کرنے سے فرض ادا ہو جائے گا قطع نظر اس سے کہ وہ پاک جگہ اونچی ہو یا نیچی ، ہموار ہو یا نا ہموار، گڑھا ہو یا ٹیلا ، قطعہ زمین ہو یا بالا خانہ، مکان کی چھت ہو یا منبر کے درجات، خواہ جنس ارض ہو یا کسی اور چیز کا فرش ، الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں بہت توسع ہے جیسا کہ آئندہ معلوم ہو گا صرف نماز کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ: (وَجُعِلَتْ لي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا) کا مفہوم یہ نہیں کہ زمین پر ہی سجدہ ہونا چاہیے بلکہ اگر زمین اور نماز کے درمیان چھت ، منبر یا لکڑی کا تختہ ہو تو یہ سب صورتیں نماز کے لیے جائز قراردی جائیں گی بشرطیکہ وہ پاک ہوں اگر جگہ پاک ہے تو چھت ، اور سطح زمین کا کوئی فرق نہیں چونکہ بعض اسلاف سے الراح (تختوں) اور (أخشَاب) (لکڑیوں )پر نماز کی کراہت منقول ہوئی ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو عنوان میں صراحت کرنی پڑی کہ لکڑی کے تختوں پر بھی نماز جائز ہے۔
حضرت ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے فرمایا کہ حضرت امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہؓ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی ( اور وہ نیچے تھا ) اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے برف پر نماز پڑھی۔تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری قدس سرہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان صورتوں میں نماز درست ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ نجاست کا دورکرنا جو نمازی پر فرض ہے اس سے یہ غرض ہے کہ نمازی کے بدن یا کپڑے سے نجاست نہ لگے۔ اگردرمیان میں کوئی چیز حائل ہو جیسے لو ہے کا بمبا ہو یا ایسا کوئی نلوہ ہو جس کے اندر نجاست بہ رہی ہو اور اس کے اوپر کی سطح پر جہاں نجاست کا کوئی اثر نہیں ہے کوئی نماز پڑھے تو یہ درست ہے۔ حضرت ابوہریرہ والے اثر کو ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصورنے نکالا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر گئے تو آپ کی پنڈلی یا کندھا مجروح ہو گیا اور آپ نے ایک ماہ تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی، اس بنا پر اپنے بالا خانے میں تشریف فر ہوئے جس کی سیڑھی کھجور کے تنوں کی تھی، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی تیمارداری کے لیے آئے، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ وہ کھڑے تھے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ’’امام تو اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اسی طرح جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر اس کی اقتدا کرو۔’’ پھر آپ نے انتیس دن پورے ہونے پر بالاخانے سے نزول فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک ماہ الگ رہنے کی قسم کھائی تھی! آپ نے فرمایا: :مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‘‘
امام بخاری کہتے ہیں: حسن بصری نے برف اور پل پر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے اگرچہ اس کے نیچے یا اس کے اوپر یا آگے پیشاب بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور پیشاب کے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے امام کے پیچھے مسجد کی چھت پر نماز اد اکی۔ اور حضرت ابن عمر ؓ نے برف پر نماز پڑھی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا کہ کہا ہم سے یزید بن ہارون نے، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی انس بن مالک ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ ( 5 ھ میں ) اپنے گھوڑے سے گر گئے تھے۔ جس سے آپ کی پنڈلی یا کندھا زخمی ہو گئے اور آپ نے ایک مہینے تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی۔ آپ اپنے بالاخانہ میں بیٹھ گئے۔ جس کے زینے کھجور کے تنوں سے بنائے گئے تھے۔ صحابہ ؓ مزاج پرسی کو آئے۔ آپ نے انھیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور وہ کھڑے تھے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر کھڑے ہو کر تمہیں نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور آپ انتیس دن بعد نیچے تشریف لائے، تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے تو ایک مہینہ کے لیے قسم کھائی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔
حدیث حاشیہ:
5ھ میں آپ ﷺ اتفاقاً گھوڑے سے گرگئے تھے اور ایک موقع پر آپ نے ازواج مطہرات سے ایک مہینہ کے لیے 9ھ میں علیحدگی کی قسم کھالی تھی۔ ان دونوں مواقع پر آپ نے بالاخانے میں قیام فرمایا تھا۔ زخمی ہونے کی حالت میں اس لیے کہ صحابہ کو عیادت میں آسانی ہو اور ازواج مطہرات سے جب آپ نے ملنا جلنا ترک کیا تواس خیال سے کہ پوری طرح ان سے علیحدگی رہے، بہرحال ان دونوں واقعات کے سن وتاریخ الگ الگ ہیں۔ لیکن راوی اس خیال سے کہ دونوں مرتبہ آپ نے بالاخانہ پر قیام فرمایا تھا، انھیں ایک ساتھ ذکر کردیتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ امام اگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں:'' والصحیح أنه منسوخ بصلاتهم في آخرعمره علیه الصلوة والسلام قیاما خلفه وهوقاعد۔''’’یعنی صحیح یہ ہے کہ یہ منسوخ ہے اس لیے کہ آخر عمر میں ( آنحضرت ﷺ ) نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور صحابہ ؓ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) fell off a horse and his leg or shoulder got injured. He swore that he would not go to his wives for one month and he stayed in a Mashruba (attic room) having stairs made of date palm trunks. So his companions came to visit him, and he led them in prayer sitting, whereas his companions were standing. When he finished the prayer, he said, "Imam is meant to be followed, so when he says 'Allahu Akbar,' say 'Allahu Akbar' and when he bows, bow and when he prostrates, prostrate and if he prays standing pray, standing. After the 29th day the Prophet (ﷺ) came down (from the attic room) and the people asked him, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! You swore that you will not go to your wives for one month." He said, "The month is 29 days."