صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
20. باب: بورئیے پر نماز پڑھنے کا بیان
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
20. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الحَصِيرِ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
20. Chapter: To offer As-Salat (the prayers) on the Hasir (a mat that is made of the leaves of date-palm trees and is as long as or longer than a man's stature
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayers) on the Hasir (a mat that is made of the leaves of date-palm trees and is as long as or longer than a man's stature)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جابر اور ابوسعید خدری ؓ نے کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور امام حسنؓ نے کہا کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ جب تک کہ اس سے تیرے ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو اور کشتی کے رخ کے ساتھ تو بھی گھومتا جا ورنہ بیٹھ کر پڑھ۔تشریح : حضرت جابربن عبداللہ کے اثرکو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ کشتی چلتی رہتی اور ہم نماز پڑھتے رہتے حالانکہ ہم چاہتے تو کشتی کا لنگر ڈال سکتے تھے۔ امام حسن بصری والے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور امام بخاری نے تاریخ میں روایت کیا ہے۔ کشتی کے ساتھ گھومنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز شروع کرنے کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرلو، پھرجدھر کشتی گھومے کچھ مضائقہ نہیں۔ نماز پڑھتے رہو۔ گوقبلہ رخ باقی نہ رہے، امام بخاری یہ اثر اس لیے لائے ہیں کہ کشتی بھی زمین نہیں ہے جیسا بوریا زمین نہیں ہے اور اس پر نماز درست ہے۔ جوزابوحنیفۃ الصلوٰۃ فی السفینۃ قاعدا مع القدرۃ علی القیام ( قسطلانی ) یعنی حضرت امام ابوحنیفہ نے کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کو جائز قراردیا ہے اگرچہ کھڑے ہونے کی قدرت بھی ہو۔ ( یہ باب منعقد کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے کہ جو مٹی کے سوا اور کسی بھی چیز پر سجدہ جائز نہیں جانتے
385.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی دادی حضرت مُلیکہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے کے لیے دعوت دی جو انھوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ آپ نے اس سے کچھ تناول فرمایا، پھر فرمانے لگے: ’’کھڑے ہو جاؤ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔‘‘ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک چٹائی کو اٹھایا جو کثرت استعمال کی وجہ سے سیاہ ہو گئی تھی، اسے پانی سے دھویا۔ پھر رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہو گئے۔ میں نے اور ایک چھوٹے بچے نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور بڑھیا ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد آپ واپس تشریف لے گئے۔
تشریح:
1۔ابن بطال کی رائے کے مطابق اگر مصلی بقدر قامت انسان ہو تو اسے حصیر کہتے ہیں اس سے کم ہو تو اسے خمرہ کہا جاتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ ان تمام افعال پر عنوانات قائم کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں اس مقام پرالصلاة علی الحصیراس کے بعد الصلاة علی الخمرة اور الصلاة علی الفراش اسی نوعیت کے ہیں۔اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ چھوٹی یا بڑی چٹائی پر نماز ادا کرنا جائز ہے۔ البتہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق بعض روایات ملتی ہیں کہ ان کے لیے مٹی لائی جاتی۔ اسے چٹائی پر رکھا جاتا، پھر آپ اس پر سجدہ کرتے، حضرت ابراہیم نخعی ؒ کےمتعلق بھی مروی ہے کہ وہ بھی زمین پر سجدہ کرنے کو پسند کرتے تھے۔ اگر یہ روایات صحیح ہیں تو یہ ان حضرات کے انتہائی عجز و انکسار اور تواضع پر محمول کی جائی گی۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ چٹائی پر نماز ادا کرنے کو درست خیال نہیں کرتے تھے، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ سے چٹائی پر نماز پڑھنا ثابت ہے تو اس کے جواز میں کیا شبہ ہو سکتا ہے جب کہ آپ سے زیادہ تواضع اور خشوع بھی کسی میں نہیں ہو سکتا، بلکہ سعید بن مسیب ؒ نے تو چٹائی پر نماز ادا کرنے کو سنت قراردیا ہے۔ (شرح ابن بطال:43/2) 2۔ شریح بن ہانی ؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ آیا رسول اللہ ﷺ چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے چٹائی بنایا ہے؟اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ چٹائی پر نماز نہیں پڑھتے تھے امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے اگر مذکورہ روایت صحیح ہے تو شاذ ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں کیونکہ اس سے زیادہ قوی روایات اس کے معارض ہیں جیسا کہ حضرت انس ؓ کی روایت جسے امام بخاری ؒ نے بیان فرمایا ہے بلکہ خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جیسا کہ آئے گا کہ نبی ﷺ کی ایک چٹائی تھی جسے آپ بچھا کر بیٹھتے تھے اور بوقت ضرورت اس پر نماز ادا کرتے۔ ( فتح الباري:636/1) 3اس کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چٹائی پر نماز ادا کرتے دیکھاہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:159 (519))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
378
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
380
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
380
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
380
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
چٹائی پر اور کشتی میں نماز ادا کرنے میں قدر مشترک یہ ہے کہ جس طرح چٹائی زمین کا فرش ہوتی ہے اسی طرح کشتی پانی کا فرش ہے پھر دونوں کا مادہ ایک ہی ہے یعنی جس طرح چٹائی نباتی ہے اسی طرح کشتی بھی نباتی ہے کہ وہ تختوں سے بنائی جاتی ہے الیے معنوی اور مادی مناسبت کی وجہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ آثار کو چٹائی پر نماز پڑھنے کے عنوان میں بیان کردیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ(3/187)میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔( فتح الباری:1/633۔)علامہ ابن منیر نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان آثار کو اس باب میں اس لیے بیان کیا ہے کہ چٹائی پر نماز اور کشتی میں نماز دونوں زمین کے علاوہ کسی دوسری چیز پر ہیں تاکہ یہ خیال نہ آئے کہ صرف زمین پر نماز کی ادائیگی ضروری ہے جیسا کہ آپ نے حضرت افلح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا:"دوران نماز میں اپنے چہرے کو خاک آلود کر۔"( جامع الترمذی الصلاۃ حدیث:381۔)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان آثار سے اس اشکال کو دور فرمایا ہے(المتواری84۔)۔یادرہے کہ ترمذی کی مذکورہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے (ضعیف جامع الترمذی للالبانی حدیث 381) علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس سے زیادہ قوی مناسبت یہ ہے کہ جس طرح چٹائی زمین پر ہوتی ہے اس طرح کشتی پانی میں ہوتی ہے۔لہذا دونوں پر نماز درست ہے۔( عمدۃ القاری:3/336۔)
اور جابر اور ابوسعید خدری ؓ نے کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور امام حسنؓ نے کہا کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ جب تک کہ اس سے تیرے ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو اور کشتی کے رخ کے ساتھ تو بھی گھومتا جا ورنہ بیٹھ کر پڑھ۔تشریح : حضرت جابربن عبداللہ کے اثرکو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ کشتی چلتی رہتی اور ہم نماز پڑھتے رہتے حالانکہ ہم چاہتے تو کشتی کا لنگر ڈال سکتے تھے۔ امام حسن بصری والے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور امام بخاری نے تاریخ میں روایت کیا ہے۔ کشتی کے ساتھ گھومنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز شروع کرنے کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرلو، پھرجدھر کشتی گھومے کچھ مضائقہ نہیں۔ نماز پڑھتے رہو۔ گوقبلہ رخ باقی نہ رہے، امام بخاری یہ اثر اس لیے لائے ہیں کہ کشتی بھی زمین نہیں ہے جیسا بوریا زمین نہیں ہے اور اس پر نماز درست ہے۔ جوزابوحنیفۃ الصلوٰۃ فی السفینۃ قاعدا مع القدرۃ علی القیام ( قسطلانی ) یعنی حضرت امام ابوحنیفہ نے کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کو جائز قراردیا ہے اگرچہ کھڑے ہونے کی قدرت بھی ہو۔ ( یہ باب منعقد کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے کہ جو مٹی کے سوا اور کسی بھی چیز پر سجدہ جائز نہیں جانتے
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی دادی حضرت مُلیکہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے کے لیے دعوت دی جو انھوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ آپ نے اس سے کچھ تناول فرمایا، پھر فرمانے لگے: ’’کھڑے ہو جاؤ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔‘‘ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک چٹائی کو اٹھایا جو کثرت استعمال کی وجہ سے سیاہ ہو گئی تھی، اسے پانی سے دھویا۔ پھر رسول اللہ ﷺ اس پر کھڑے ہو گئے۔ میں نے اور ایک چھوٹے بچے نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور بڑھیا ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد آپ واپس تشریف لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ابن بطال کی رائے کے مطابق اگر مصلی بقدر قامت انسان ہو تو اسے حصیر کہتے ہیں اس سے کم ہو تو اسے خمرہ کہا جاتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ ان تمام افعال پر عنوانات قائم کرتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں اس مقام پرالصلاة علی الحصیراس کے بعد الصلاة علی الخمرة اور الصلاة علی الفراش اسی نوعیت کے ہیں۔اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ چھوٹی یا بڑی چٹائی پر نماز ادا کرنا جائز ہے۔ البتہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے متعلق بعض روایات ملتی ہیں کہ ان کے لیے مٹی لائی جاتی۔ اسے چٹائی پر رکھا جاتا، پھر آپ اس پر سجدہ کرتے، حضرت ابراہیم نخعی ؒ کےمتعلق بھی مروی ہے کہ وہ بھی زمین پر سجدہ کرنے کو پسند کرتے تھے۔ اگر یہ روایات صحیح ہیں تو یہ ان حضرات کے انتہائی عجز و انکسار اور تواضع پر محمول کی جائی گی۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ چٹائی پر نماز ادا کرنے کو درست خیال نہیں کرتے تھے، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ سے چٹائی پر نماز پڑھنا ثابت ہے تو اس کے جواز میں کیا شبہ ہو سکتا ہے جب کہ آپ سے زیادہ تواضع اور خشوع بھی کسی میں نہیں ہو سکتا، بلکہ سعید بن مسیب ؒ نے تو چٹائی پر نماز ادا کرنے کو سنت قراردیا ہے۔ (شرح ابن بطال:43/2) 2۔ شریح بن ہانی ؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ آیا رسول اللہ ﷺ چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے چٹائی بنایا ہے؟اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ چٹائی پر نماز نہیں پڑھتے تھے امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے اگر مذکورہ روایت صحیح ہے تو شاذ ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں کیونکہ اس سے زیادہ قوی روایات اس کے معارض ہیں جیسا کہ حضرت انس ؓ کی روایت جسے امام بخاری ؒ نے بیان فرمایا ہے بلکہ خود حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جیسا کہ آئے گا کہ نبی ﷺ کی ایک چٹائی تھی جسے آپ بچھا کر بیٹھتے تھے اور بوقت ضرورت اس پر نماز ادا کرتے۔ ( فتح الباري:636/1) 3اس کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چٹائی پر نماز ادا کرتے دیکھاہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:159 (519))
ترجمۃ الباب:
حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ حضرت حسن بصری نے فرمایا: اگر تمہارے رفقاء سفر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں مشقت محسوس نہ کریں تو کھڑے ہو کر نماز پڑھنی چاہئے بصورت دیگر بیٹھ کر نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ لیکن ہر حال میں کشتی کے ساتھ قبلہ کی سمت گھومتے رہنا چاہئے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے، انھوں نے انس بن مالک ؓ سے کہ ان کی نانی ملیکہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو کھانا تیار کر کے کھانے کے لیے بلایا۔ آپ نے کھانے کے بعد فرمایا کہ آو تمہیں نماز پڑھا دوں۔ انس ؓ نے کہا کہ میں نے اپنے گھر سے ایک بوریا اٹھایا جو کثرت استعمال سے کالا ہو گیا تھا۔ میں نے اس پر پانی چھڑکا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے ( اسی بورئیے پر ) کھڑے ہوئے اور میں اور ایک یتیم ( کہ رسول اللہ ﷺ کے غلام ابوضمیرہ کے لڑکے ضمیرہ ) آپ کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہو گئے اور بوڑھی عورت ( انس کی نانی ملیکہ ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی اور واپس گھر تشریف لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
بعض لوگوں نے ملیکہ کو حضرت انس ؓ کی دادی بتلایا ہے۔ ملیکہ بنت مالک بن عدی ؓ انس کی ماں کی والدہ ہیں۔ انس کی ماں کا نام ام سلیم اور ان کی ماں کا نام ملیکہ ہے۔ أوالضمیر في جدته یعود علی أنس نفسه وبه جزم ابن سعد(قسطلاني) یہاں بھی حضرت امام ؒ ان لوگوں کی تردید کررہے ہیں جو سجدہ کے لیے صرف مٹی ہی کو بطور شرط خیال کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ishaq (RA): Anas bin Malik (RA) said, "My grand-mother Mulaika invited Allah's Apostle (ﷺ) for a meal which she herself had prepared. He ate from it and said, 'Get up! I will lead you in the prayer.' " Anas (RA) added, "I took my Hasir, washed it with water as it had become dark because of long use and Allah's Apostle (ﷺ) stood on it. The orphan (Damira or Ruh) and I aligned behind him and the old lady (Mulaika) stood behind us. Allah's Apostle (ﷺ) led us in the prayer and offered two Rak'at and then left."