تشریح:
1۔امام بخاری ؒ کی بیان کردہ کئی ایک احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو برس میں ہوئی اور نو برس تک وہ رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں رہیں جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو ان کی عمراٹھارہ برس کی تھیں، چنانچہ ایک روایت میں خود حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کا نکاح تو ان کی عمر چھ برس تھی اور جب وہ آپ کی خدمت میں لائی گئیں تو وہ نو برس کی تھیں، اس کے بعد نو برس تک آپ کی رفاقت میں رہیں۔ (صحیح البخاری، النکاح حدیث:5133) اصلی شہادت کے علاوہ دیگر ضمنی بیانات سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ نکاح اور رخصتی کے وقت آپ چھوٹی عمر کی تھیں۔ مثلاً: آپ جب رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لے گئیں تو گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث6287) رخصتی کے وقت میں جھولا کھول رہی تھی۔ حدیث افک میں ہے کہ آپ اس وقت کمسن اور نو خیز لڑکی تھی۔ (صحیح البخاری، النکاح، حدیث:5133) نکاح کے وقت آپ کوکوئی علم نہ تھا۔ (طبقات ابن سعد:43/8) اگر نکاح یا رخصتی کے وقت آپ کی عمر بیس یا اکیس برس تھی جیسا کہ معترضین حضرات کا کہنا ہے تو کیا اتنی عمر والی لڑکی کو کم سن یا نو خیز لڑکی کہا جا سکتا ہے؟ یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس عمر میں لڑکی بالغ نہیں ہوتی تو نکاح اور رخصتی چہ معنی وارد؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معترض یورپ کی سرد آب و ہوا کی گرم آب و ہوا کو قیاس کر رہا ہے۔ واقعی ٹھنڈے ممالک میں دیرسے بلوغ آتا ہے لیکن گرم ممالک میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہاں بلوغ جلد آجاتا ہے چنانچہ حسن بن صالح فرماتے ہیں کہ میں اکیس سال کی لڑکی کو دیکھا جودادی یا نانی بن چکی تھی۔ (صحیح البخاري، الشهادات، باب:18۔ قبل حدیث:2664) 2۔ اس کے علاوہ اس نکاح سے مقصود نبوت و خلافت کے باہم رشتوں کو مضبوط کرنا تھا نیز عائشہ ؓ کی طبعی ذکاوت و ذہانت سے اسلام کو فائدہ پہنچانا اور اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کا سامان مہیا کرنا تھا، الحمد للہ یہ مقاصد حرف بحرف پورے ہوئے حضرت عائشہ کی زندگی اس کی گواہ ہے تاہم یہ نبوت کی ایک استثنائی مثال ہے جس کی مسلمانوں کو پیروی صرف استثنائی صورت ہی میں کرنی چاہیے۔ 3۔ بعض لوگوں نے "الإکمال في أسماء الرجال" نامی رسالے کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اپنی ہمشیر حضرت اسماء سے دس سال چھوٹی تھیں۔ انھوں نے 73 ھ میں وفات پائی جبکہ ان کی عمرسو سال تھی۔ اس اعتبار سے ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس سال بنتی ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی عمر دس سال کم یعنی سترہ برس ہوگی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر پندرہ برس ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قول قبل کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے جو اس کے کمزور ہونے کی علامت ہے پھر یہ مستند روایات کے خلاف ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حالات میں خود لکھا ہے کہ شب عروسی کے وقت ان کی عمر نو برس تھی اور رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت وہ اٹھارہ برس کی تھیں ۔بہرحال عقل و نقل کے اعتبار سے حدیث بخاری کے مضمون میں کوئی ناممکن یا و پیچیدہ بات نہیں ہے۔ اس کے لیے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کی کتاب’’حضرت عائشہ ؓ کی عمر پر تحقیقی نظر‘‘ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔