تشریح:
1۔ اس حدیث میں استقبال قبلہ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، وہ اس طرح کہ جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، ہماری نماز میں رکوع بھی ہے، سجدہ بھی ہے اور قبلے کی طرف منہ بھی، لیکن اس ضمنی تذکرے پر اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ استقبال قبلہ کومستقل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح اس کی خصوصیت فضیلت اور اہمیت معلوم ہوگئی اور اس حقیقت پر تنبیہ ہوگئی کہ قبلے کا اختیار کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز پیداکرتی ہیں۔ نماز اور استقبال قبلہ مذہبی امتیاز ہے، کیونکہ دوسرے مذاہب میں اول تو نماز ہماری نماز کی طرح نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی نماز میں استقبال قبلہ نہیں۔ تیسرا امتیاز ذبیحہ کا کھانا ہے جو معاشرتی امتیاز ہے، کیونکہ دیگر اہل مذاہب ہمارا ذبیحہ استعمال نہیں کرتے۔ گویا یہ تینوں چیزیں مسلمانوں کے لیے شعار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگرکوئی ایسی چیز ظاہر نہ ہو جس کے اختیار کرنے سے کفر لازم آتا ہے تو ان چیزوں کے اختیار کرنے والے کو مسلمان سمجھا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ تین چیزیں ہی مسلمان ہونے کے لیے کافی ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جولوگ دین کی دوسری ضروریات کے ساتھ ان امتیازات کو قائم رکھیں وہ مسلمان ہیں۔ 2۔ جو شخص ضروریات دین کا انکار کرتاہے وہ اہل قبلہ نہیں رہتا۔ ضروریات دین سے مراد وہ چیزیں ہیں جوکتاب اللہ، سنت رسول اللہ ﷺ اور اجماع امت سے ثابت ہوں۔ ان تینوں ذرائع سے جتنے بھی عقائدواعمال اور فرائض ونوافل ثابت ہیں ان سب پر ایمان لانا، اور انھیں تسلیم کرنا ضروریات دین کہلاتا ہے، ان کا انکار یا تاویل باطل کفر ہے، مثلاً: نماز پڑھنا فرض ہے اور اس کے فرض ہونے کا اعتقاد بھی فرض، اس کاسیکھنا بھی فرض، اس سے ناواقفیت یا انکار کفر ہے۔ 3۔ دوران نماز میں قبلے کی طرف منہ کرنا ضروری ہے، البتہ عذر یا خوف کی حالت میں اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے، اسی طرح نفلی نماز میں اس کے متعلق کچھ تخفیف ہے جبکہ سواری پر اد کی جارہی ہو۔ (فتح الباري:644/1)