Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer Salat (prayer) with the shoes on)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
391.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، ان سے دریافت کیا گیا: کیا نبی ﷺ جوتوں سمیت نماز پڑھ لیتے تھے؟انھوں نے جواب دیا: ہاں پڑھ لیتے تھے۔
تشریح:
1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر گئے توتادبافرمان الٰہی صادر ہوا:﴿ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾’’بلا شبہ میں تمھارا رب ہوں، یقیناً (اس وقت )تم مقدس وادی میں ہو، لہٰذا اپنے جوتے اتارلو۔‘‘( فتح الباري:640/1) یہود نے اس حکم کو مطلق طور پر ممانعت پر محمول کیا جس کی بنا پر ان کے نزدیک کسی بھی صورت میں جوتوں سمیت نماز درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی اس شدت کی اصلاح کرتے ہوئے مطلق جواز کو باقی رکھا اور فرمایا کہ یہود کی مخالفت کرو۔اور جوتوں میں نماز پڑھو۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 652) لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ جوتے پاک ہوں، کیونکہ ناپاکی کی صورت میں انھیں پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اگر انھیں نجاست لگی ہوتو دھونے کے بجائے صرف پاک مٹی سے صاف کر لینا ہی کافی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ جوتوں سمیت نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک دوران نماز میں انھیں اتار دیا۔ آپ کی اتباع میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی جوتے اتار دیے ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے جوتے اتارنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ انھوں نے عرض کیا کہ ہم نے تو آپ کی اتباع میں اتارے ہیں۔ آپ نے فرمایا : ’’مجھے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے بتایا تھا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے، اس لیے میں نے انھیں اتار دیا، لہٰذا تم میں سے جب کوئی نماز کے لیے مسجد میں آئے تو اپنے جوتوں کو دیکھ لے۔ اگر نجاست آلود ہوں تو انہیں صاف کرکے ان میں نماز پڑھ لے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:650) 2۔ جوتے پہن کر نمازپڑھنے کی رخصت ضرور ہے، لیکن اسے درجہ استحباب دے کر دید ہ دانستہ صاف ستھری مساجد میں جوتوں سمیت نماز ادا کرنے پر اصرار انتہا پسندی ہے۔ ہمارے بعض شدت پسند نوجوان اسے ’’مردہ سنت‘‘ خیال کرکے اس کے احیا کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس فکری غلطی کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ شریعت نے اس عمل کو صرف جائز قراردیا ہے۔ بذات خود یہ مطلوب نہیں۔ صرف یہود کے عمل سے اختلاف ظاہر کرنے کی صورت میں اسے استحباب کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ یہ عمل رخصت ضرور ہے، لیکن اسے مستحب نہیں قراردیا جا سکتا، کیونکہ نماز کے لیے یہ عمل بذات خود مطلوب نہیں، جوتے پہننا اگرچہ ملا بس زینت سے ہے، لیکن زمین پر چلتے وقت ان کے نجاست آلود ہونے کی وجہ سے انھیں رتبہ مطلوب حاصل نہیں ہو سکا اور جب مصلحت تحسین اور ازالہ نجاست کا تعارض ہو تو ازالہ نجاست کی رعایت کرتے ہوئے انھیں جلب مصالح کے بجائے دفع مفاسد ہی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی خاص دلیل آجائے جس کے پیش نظر اس کا تحمل راجح قرار پائے تو اس قیاس کا ترک صحیح ہو سکتا ہے۔ البتہ مخالفت یہود کے پیش نظر اسے استحباب پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ عمل صرف مباح اور جواز کی حد تک صحیح ہے۔ ( فتح الباري:640/1) عہد نبوی میں مساجد کی حالت اور اس وقت کے جوتوں کی نوعیت اور ہمارے دور کی بودو باش اور طرز معاشرت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امام بخاریؒ نے مستقل ایک عنوان قائم کیا کہ حالات و ظروف کے پیش نظر بعض اوقات اپنے کسی پسندیدہ عمل کو ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ (صحیح البخاري، کتاب العلم، باب:48) 3۔ حافظ ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں حضرت انس ؓ سے مرفوعاً ایک روایت نقل کی ہے کہ ﴿ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ کی تفسیر یہ ہے کہ جوتوں سمیت نماز پڑھو لیکن روایت ذکر کرنے کے بعد اس کی صحت کو محل نظر قراردیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کی سند انتہائی کمزور ہے۔ ( فتح الباري:640/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
384
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
386
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
386
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
386
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
قبل ازیں بیان ہوا تھا کہ پیشانی اعضائے سجدہ سے ہے اس لیے سجدہ کرتے وقت اگر اس کے اور زمین کے درمیان کوئی چیز حائل ہو جائے مثلاً:کپڑا وغیرہ تو سجدہ صحیح ہے اب بیان کیا جا رہا ہے کہ پاؤں بھی اعضائے سجدہ سے ہیں اگر ان کے اور زمین کے درمیان جوتا وغیرہ حائل ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، ان سے دریافت کیا گیا: کیا نبی ﷺ جوتوں سمیت نماز پڑھ لیتے تھے؟انھوں نے جواب دیا: ہاں پڑھ لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر گئے توتادبافرمان الٰہی صادر ہوا:﴿ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾’’بلا شبہ میں تمھارا رب ہوں، یقیناً (اس وقت )تم مقدس وادی میں ہو، لہٰذا اپنے جوتے اتارلو۔‘‘( فتح الباري:640/1) یہود نے اس حکم کو مطلق طور پر ممانعت پر محمول کیا جس کی بنا پر ان کے نزدیک کسی بھی صورت میں جوتوں سمیت نماز درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی اس شدت کی اصلاح کرتے ہوئے مطلق جواز کو باقی رکھا اور فرمایا کہ یہود کی مخالفت کرو۔اور جوتوں میں نماز پڑھو۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 652) لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ جوتے پاک ہوں، کیونکہ ناپاکی کی صورت میں انھیں پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اگر انھیں نجاست لگی ہوتو دھونے کے بجائے صرف پاک مٹی سے صاف کر لینا ہی کافی ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ جوتوں سمیت نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک دوران نماز میں انھیں اتار دیا۔ آپ کی اتباع میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی جوتے اتار دیے ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے جوتے اتارنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ انھوں نے عرض کیا کہ ہم نے تو آپ کی اتباع میں اتارے ہیں۔ آپ نے فرمایا : ’’مجھے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے بتایا تھا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے، اس لیے میں نے انھیں اتار دیا، لہٰذا تم میں سے جب کوئی نماز کے لیے مسجد میں آئے تو اپنے جوتوں کو دیکھ لے۔ اگر نجاست آلود ہوں تو انہیں صاف کرکے ان میں نماز پڑھ لے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:650) 2۔ جوتے پہن کر نمازپڑھنے کی رخصت ضرور ہے، لیکن اسے درجہ استحباب دے کر دید ہ دانستہ صاف ستھری مساجد میں جوتوں سمیت نماز ادا کرنے پر اصرار انتہا پسندی ہے۔ ہمارے بعض شدت پسند نوجوان اسے ’’مردہ سنت‘‘ خیال کرکے اس کے احیا کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس فکری غلطی کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ شریعت نے اس عمل کو صرف جائز قراردیا ہے۔ بذات خود یہ مطلوب نہیں۔ صرف یہود کے عمل سے اختلاف ظاہر کرنے کی صورت میں اسے استحباب کی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ یہ عمل رخصت ضرور ہے، لیکن اسے مستحب نہیں قراردیا جا سکتا، کیونکہ نماز کے لیے یہ عمل بذات خود مطلوب نہیں، جوتے پہننا اگرچہ ملا بس زینت سے ہے، لیکن زمین پر چلتے وقت ان کے نجاست آلود ہونے کی وجہ سے انھیں رتبہ مطلوب حاصل نہیں ہو سکا اور جب مصلحت تحسین اور ازالہ نجاست کا تعارض ہو تو ازالہ نجاست کی رعایت کرتے ہوئے انھیں جلب مصالح کے بجائے دفع مفاسد ہی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی خاص دلیل آجائے جس کے پیش نظر اس کا تحمل راجح قرار پائے تو اس قیاس کا ترک صحیح ہو سکتا ہے۔ البتہ مخالفت یہود کے پیش نظر اسے استحباب پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ عمل صرف مباح اور جواز کی حد تک صحیح ہے۔ ( فتح الباري:640/1) عہد نبوی میں مساجد کی حالت اور اس وقت کے جوتوں کی نوعیت اور ہمارے دور کی بودو باش اور طرز معاشرت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امام بخاریؒ نے مستقل ایک عنوان قائم کیا کہ حالات و ظروف کے پیش نظر بعض اوقات اپنے کسی پسندیدہ عمل کو ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ (صحیح البخاري، کتاب العلم، باب:48) 3۔ حافظ ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں حضرت انس ؓ سے مرفوعاً ایک روایت نقل کی ہے کہ ﴿ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ کی تفسیر یہ ہے کہ جوتوں سمیت نماز پڑھو لیکن روایت ذکر کرنے کے بعد اس کی صحت کو محل نظر قراردیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس کی سند انتہائی کمزور ہے۔ ( فتح الباري:640/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابومسلمہ سعید بن یزید ازدی نے بیان کیا، کہا میں نے انس بن مالک ؓ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ اپنی جوتیاں پہن کر نماز پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ ہاں
حدیث حاشیہ:
ابوداؤد اور حاکم کی حدیث میں یوں ہے کہ یہودیوں کے خلاف کرو وہ جوتیوں میں نماز نہیں پڑھتے۔ حضرت عمرؓ نماز میں جوتے اتارنا مکروہ جانتے تھے اور ابوعمرو شیبانی ؒ کوئی نماز میں جوتا اتارے تواسے مارا کرتے تھے۔ مگریہ شرط ضروری ہے کہ پاک صاف ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نعل عربوں کا ایک خاص جوتا تھا اور عام جوتوں میں نماز جائز نہیں۔ خواہ وہ پاک صاف بھی ہوں۔ دلائل کی رو سے ایسا کہناصحیح نہیں ہے۔ جوتوں میں نماز بلاکراہت جائز درست ہے۔ بشرطیکہ وہ پاک صاف ستھرے ہوں، گندگی کا ذرا بھی شبہ ہو تو ان کو اتاردینا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Maslama (RA): Said bin Yazid Al-Azdi: I asked Anas bin Malik (RA) whether the Prophet (ﷺ) had ever, prayed with his shoes on. He replied "Yes."