قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ فَضْلِ اسْتِقْبَالِ القِبْلَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: يَسْتَقْبِلُ بِأَطْرَافِ رِجْلَيْهِ قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ

392.  حَدَّثَنَا نُعَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ المُبَارَكِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا، وَصَلَّوْا صَلاَتَنَا، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَذَبَحُوا ذَبِيحَتَنَا، فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور ابوحمید ؓ صحابی نے نبی کریم ﷺسے روایت کی ہے کہ نمازی نماز میں پاؤں کی انگلیاں بھی قبلے کی طرف رکھے۔تشریح : آنحضرت ﷺ قیام مکہ میں اور شروع زمانہ میں مدینہ میں بیت المقدس ہی کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ مگر آپ کی تمنا تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ مکہ شریف کی مسجد کومقرر کیاجائے۔ چنانچہ مدینہ میں تحویل قبلہ ہوا اور آپ نے مکہ شریف کی مسجد کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز شروع کی اور قیامت تک کے لیے یہ تمام دنیائے اسلام کے لیے قبلہ مقررہوا۔ اب کلمہ شہادت کے ساتھ قبلہ کو تسلیم کرنا بھی ضروریات ایمان سے ہے۔

392.

حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے کلمہ طیبہ کے قائل ہونے تک لوگوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر جب وہ اس کلمہ طیبہ کے قائل ہو جائیں، ہماری طرح نماز ادا کرنے لگیں، ہمارے قبلے کی طرف منہ کریں اور ہمارے ذبیحے کو کھائیں تو اس وقت ہم پر ان کے خون اور مال حرام ہو جائیں گے مگر حق (اسلام) کی صورت میں ان کی جان و مال سے تعرض درست ہو گا، باقی ان کا حساب اللہ کے حوالے ہے۔‘‘