Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Superiority of (praying) facing the Qiblah with the toes toward it as well)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوحمید ؓ صحابی نے نبی کریم ﷺسے روایت کی ہے کہ نمازی نماز میں پاؤں کی انگلیاں بھی قبلے کی طرف رکھے۔تشریح : آنحضرت ﷺ قیام مکہ میں اور شروع زمانہ میں مدینہ میں بیت المقدس ہی کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ مگر آپ کی تمنا تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ مکہ شریف کی مسجد کومقرر کیاجائے۔ چنانچہ مدینہ میں تحویل قبلہ ہوا اور آپ نے مکہ شریف کی مسجد کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز شروع کی اور قیامت تک کے لیے یہ تمام دنیائے اسلام کے لیے قبلہ مقررہوا۔ اب کلمہ شہادت کے ساتھ قبلہ کو تسلیم کرنا بھی ضروریات ایمان سے ہے۔
396.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے جسے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے، لہذا تم اللہ کے ذمے میں خیانت (بدعہدی) نہ کرو۔‘‘
تشریح:
1۔ اس حدیث میں استقبال قبلہ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، وہ اس طرح کہ جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، ہماری نماز میں رکوع بھی ہے، سجدہ بھی ہے اور قبلے کی طرف منہ بھی، لیکن اس ضمنی تذکرے پر اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ استقبال قبلہ کومستقل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح اس کی خصوصیت فضیلت اور اہمیت معلوم ہوگئی اور اس حقیقت پر تنبیہ ہوگئی کہ قبلے کا اختیار کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز پیداکرتی ہیں۔ نماز اور استقبال قبلہ مذہبی امتیاز ہے، کیونکہ دوسرے مذاہب میں اول تو نماز ہماری نماز کی طرح نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی نماز میں استقبال قبلہ نہیں۔ تیسرا امتیاز ذبیحہ کا کھانا ہے جو معاشرتی امتیاز ہے، کیونکہ دیگر اہل مذاہب ہمارا ذبیحہ استعمال نہیں کرتے۔ گویا یہ تینوں چیزیں مسلمانوں کے لیے شعار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگرکوئی ایسی چیز ظاہر نہ ہو جس کے اختیار کرنے سے کفر لازم آتا ہے تو ان چیزوں کے اختیار کرنے والے کو مسلمان سمجھا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ تین چیزیں ہی مسلمان ہونے کے لیے کافی ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جولوگ دین کی دوسری ضروریات کے ساتھ ان امتیازات کو قائم رکھیں وہ مسلمان ہیں۔ 2۔ جو شخص ضروریات دین کا انکار کرتاہے وہ اہل قبلہ نہیں رہتا۔ ضروریات دین سے مراد وہ چیزیں ہیں جوکتاب اللہ، سنت رسول اللہ ﷺ اور اجماع امت سے ثابت ہوں۔ ان تینوں ذرائع سے جتنے بھی عقائدواعمال اور فرائض ونوافل ثابت ہیں ان سب پر ایمان لانا، اور انھیں تسلیم کرنا ضروریات دین کہلاتا ہے، ان کا انکار یا تاویل باطل کفر ہے، مثلاً: نماز پڑھنا فرض ہے اور اس کے فرض ہونے کا اعتقاد بھی فرض، اس کاسیکھنا بھی فرض، اس سے ناواقفیت یا انکار کفر ہے۔ 3۔ دوران نماز میں قبلے کی طرف منہ کرنا ضروری ہے، البتہ عذر یا خوف کی حالت میں اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے، اسی طرح نفلی نماز میں اس کے متعلق کچھ تخفیف ہے جبکہ سواری پر اد کی جارہی ہو۔ (فتح الباري:644/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
389
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
391
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
391
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
391
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ احکام ستر اور اس کی اقسام بیان کرنے کے بعدایک مزید شرط استقبال قبلہ کے متعلق بیان کرنا چاہتےہیں۔آپ نے فرضیت استقبال کے ساتھ اس امر کی بھی فضیلت بتائی کہ استقبال قبلہ جمیع اعضائے جسم سے جس قدر بھی زیادہ ہوسکے کرنا چاہیے حتی کہ حالت سجدہ اور تشہد میں بھی پاؤں کی انگلیوں کوقبلے کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں انھوں نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا حوالہ دیاہے جسے آئندہ موصولاً بیان کریں گے۔( صحیح البخاری الاذان حدیث 828۔) واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس ضمن میں مساجد کے احکام بھی بیان کریں گے کیونکہ جو شخص نماز شروع کرنا چاہتا ہے اس کے لیے سب سے پہلے سترعورۃ پھر استقبال قبلہ ضروری ہے۔چونکہ فرض نماز کی ادائیگی مساجد میں مطلوب ہے،اس لیے ان کے احکام بھی بیان ہوں گے۔
اور ابوحمید ؓ صحابی نے نبی کریم ﷺسے روایت کی ہے کہ نمازی نماز میں پاؤں کی انگلیاں بھی قبلے کی طرف رکھے۔تشریح : آنحضرت ﷺ قیام مکہ میں اور شروع زمانہ میں مدینہ میں بیت المقدس ہی کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ مگر آپ کی تمنا تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ مکہ شریف کی مسجد کومقرر کیاجائے۔ چنانچہ مدینہ میں تحویل قبلہ ہوا اور آپ نے مکہ شریف کی مسجد کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز شروع کی اور قیامت تک کے لیے یہ تمام دنیائے اسلام کے لیے قبلہ مقررہوا۔ اب کلمہ شہادت کے ساتھ قبلہ کو تسلیم کرنا بھی ضروریات ایمان سے ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلے کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے جسے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے، لہذا تم اللہ کے ذمے میں خیانت (بدعہدی) نہ کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث میں استقبال قبلہ کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، وہ اس طرح کہ جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، ہماری نماز میں رکوع بھی ہے، سجدہ بھی ہے اور قبلے کی طرف منہ بھی، لیکن اس ضمنی تذکرے پر اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ استقبال قبلہ کومستقل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح اس کی خصوصیت فضیلت اور اہمیت معلوم ہوگئی اور اس حقیقت پر تنبیہ ہوگئی کہ قبلے کا اختیار کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان امتیاز پیداکرتی ہیں۔ نماز اور استقبال قبلہ مذہبی امتیاز ہے، کیونکہ دوسرے مذاہب میں اول تو نماز ہماری نماز کی طرح نہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی نماز میں استقبال قبلہ نہیں۔ تیسرا امتیاز ذبیحہ کا کھانا ہے جو معاشرتی امتیاز ہے، کیونکہ دیگر اہل مذاہب ہمارا ذبیحہ استعمال نہیں کرتے۔ گویا یہ تینوں چیزیں مسلمانوں کے لیے شعار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگرکوئی ایسی چیز ظاہر نہ ہو جس کے اختیار کرنے سے کفر لازم آتا ہے تو ان چیزوں کے اختیار کرنے والے کو مسلمان سمجھا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ تین چیزیں ہی مسلمان ہونے کے لیے کافی ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جولوگ دین کی دوسری ضروریات کے ساتھ ان امتیازات کو قائم رکھیں وہ مسلمان ہیں۔ 2۔ جو شخص ضروریات دین کا انکار کرتاہے وہ اہل قبلہ نہیں رہتا۔ ضروریات دین سے مراد وہ چیزیں ہیں جوکتاب اللہ، سنت رسول اللہ ﷺ اور اجماع امت سے ثابت ہوں۔ ان تینوں ذرائع سے جتنے بھی عقائدواعمال اور فرائض ونوافل ثابت ہیں ان سب پر ایمان لانا، اور انھیں تسلیم کرنا ضروریات دین کہلاتا ہے، ان کا انکار یا تاویل باطل کفر ہے، مثلاً: نماز پڑھنا فرض ہے اور اس کے فرض ہونے کا اعتقاد بھی فرض، اس کاسیکھنا بھی فرض، اس سے ناواقفیت یا انکار کفر ہے۔ 3۔ دوران نماز میں قبلے کی طرف منہ کرنا ضروری ہے، البتہ عذر یا خوف کی حالت میں اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے، اسی طرح نفلی نماز میں اس کے متعلق کچھ تخفیف ہے جبکہ سواری پر اد کی جارہی ہو۔ (فتح الباري:644/1)
ترجمۃ الباب:
نماز اپنے پاؤں کی انگلیوں کا رخ بھی قبلے کی طرف رکھے، اس کو حضرت ابوحمید ساعدی ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے منصور بن سعد نے میمون بن سیاہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک ؓ سے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ہے۔ پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever prays like us and faces our Quibla and eats our slaughtered animals is a Muslim and is under Allah's and His Apostle's protection. So do not betray Allah by betraying those who are in His protection."