تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ مقام ابراہیم کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں، بلکہ ہرحالت میں دوران نماز میں کعبے کا استقبال ہے، چنانچہ اس روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے سامنے دورکعت ادا کیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم آپ کی پچھلی جانب تھا۔ مقام ابراہیم کا قبلہ ہونا صرف اس صورت میں متعین ہے کہ نمازی اسے اپنے اور کعبے کے درمیان کرے، کیونکہ باقی تین جہتوں میں صرف بیت اللہ کی طرف منہ کرنے سے نمازدرست ہوجاتی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ فرض تو استقبال قبلہ، یعنی بیت اللہ کی طرف منہ کرنا ہے، مقام ابراہیم کی طرف استقبال ضروری نہیں۔ 2۔ صحیح بخاری کی بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ حضرت بلال ؓ سے یہ دریافت کرنابھول گئے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ میں کتنی رکعات اداکی ہیں۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث:2988) اس روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت بلال ؓ سے کیفیت کے متعلق سوال کیا، مقدار کے متعلق سوال نہ کرسکے، جبکہ مذکورہ روایت میں صراحت ہے کہ حضرت بلال نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت نماز ادا کی تھی،؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے سوال کرنے پر حضرت بلال ؓ نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کیا جس سے دورکعت سمجھی گئیں، پھر زبانی طور پر اس کی وضاحت کرانا بھول گئے جس کا افسوس کیاکرتے تھے۔ اور جن روایات میں بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کی نفی ہے وہ مرجوح ہیں، بلکہ آپ کا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہے۔ واضح رہے کہ بیت اللہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حضر بلال ؓ ، حضرت اسامہ ؓ ، اورحضرت عثمان بن طلحہ ؓ داخل ہوئےتھے۔ حضرت ابن عمر ؓ کو جب علم ہواتو آپ نماز سے فارغ ہوکرباہر آرہے تھے۔ (فتح الباري:648/1)