تشریح:
1۔امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ ان میں کفار قریش کا ذکر ہے جو میدان بدر میں جہنم واصل ہوئے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے ایک غیرآباد کنویں پر کھڑے ہو کرانھیں جہنم میں جانے کی خبر دی لیکن شارحین نے اس مقام پر مسئلہ سماع موتی کی تفصیل بیان کی ہےحالانکہ اس مقام پر قطعاً اس کی ضرورت نہیں۔ ہم کتاب الجنائز میں اس مسئلے پر تفصیل سے بحث کر چکے ہیں۔ 2۔ بعض اہل علم نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے (يَسْمَعُونَ) کے بجائے (يَعْلَمُونَ) بیان کیا ہے ان کے بقول جب مردوں کے لیے علم ثابت ہے تو سماع کیسے محال ہو گا؟ ممکن ہے دونوں ہوں اگر علم (ان کا جاننا) خرق عادت کے طور پر ہے تو سماع سننا بھی ایسے ہو گا یا جیسے علم زندہ کیا گیا ایسے سماع کے لیے بھی زندہ کیا گیا ہوگا۔ہمارے رجحان کے مطابق اس نکتہ آفرینی کا یہ جواب ہے کہ علم (جاننے) کا تعلق تو روح سے ہے جو موجود ہے اور اسے فنا نہیں ہے اورسماع (سننے) کا تعلق آلہ روح کے زندہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور نہ یہ بات ہی زیر بحث ہے کیونکہ روح کا علم یعنی جاننا یقینی اور باقی ہے۔ بحث اس سماع سے متعلق ہے جس کا تعلق آلہ روح یعنی کانوں سے ہے آیا مرنے کے بعد سماع آلہ روح (کانوں) سے حاصل ہوتا ہے یا نہیں جبکہ مرنے کے بعد جملہ حواس ختم ہو چکے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی پیش کردہ آیت میں اسماع (سنانے ) کی نفی ہے سماع (سننے)کی نہیں حالانکہ اسماع اصل ہے اور سماع اس کی فرع ہے جب اصل نہیں تو فرع کیسے ہو گی۔3۔بہر حال قرآنی آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ مقتولین بدر کو وقتی طور پر سنانا خصوصیات رسالت میں سے تھا۔ اس پر کسی دوسرے کو قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ جب چاہے جسے چاہے اور جس قدر چاہے مردوں کو سنا سکتاہے۔اہل بدعت کا یہ عقیدہ کہ مدفون بزرگ ان کی فریاد سنتے ہیں اور حاجات پوری کرتے ہیں سراسر باطل ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم ۔