باب: مدینہ اور شام والوں کے قبلہ کا بیان اور مشرق کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The Qiblah for the people of Al-Madina, Sham and the East)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ( مدینہ اور شام والوں کا ) قبلہ مشرق و مغرب کی طرف نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ( خاص اہل مدینہ سے متعلق اور اہل شام بھی اسی میں داخل ہیں ) کہ پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ نہ کرو، البتہ مشرق کی طرف اپنا منہ کر لو، یا مغرب کی طرف۔تشریح : مدینہ اور شام سے مکہ جنوب میں پڑتا ہے، اس لیے مدینہ اور شام والوں کو پاخانہ اور پیشاب مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرکے کرنے کا حکم ہوا لیکن جو لوگ مکہ سے مشرق یا مغرب میں رہتے ہیں ان کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ جنوب یا شمال کی طرف منہ کریں۔ امام بخاری کی مشرق اور مغرب میں قبلہ نہ ہونے سے یہی مراد ہے کہ ان لوگوں کا قبلہ مشرق اور مغرب نہیں ہے جو مکہ سے جنوب یاشمال میں رہتے ہیں۔
400.
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو اور نہ اس کی طرف اپنی پشت ہی کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لو۔‘‘ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم ملک شام گئے تو ہم نے وہاں بیت الخلا قبلہ رخ پائے، چنانچہ ہم وہاں ترچھے ہو کر بیٹھتے اور حق تعالیٰ سے اس پر معافی مانگتے۔ امام زہری ؓ حضرت عطاء سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ایوب ؓ سے سنا، انھوں نے نبی ﷺ سے اس (روایت) کے مثل بیان کیا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے مدینے کے مشرقی جانب والے شہروں کا قبلہ بتایا ہے جب کہ مغربی جانب والوں کا بھی قبلہ یہی ہے۔ اس کے متعلق ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ یہاں مشرق کا ذکر اکتفا کی قبیل سے ہے۔ کیونکہ مراد مشرق ومغرب دونوں ہیں، یعنی أحد المتقابلین کے ذکر پر اکتفا کرلیا یا اس لیے صرف مشرق کاذکر ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی آبادی زیادہ تر اسی جانب تھی، مغرب میں اتنے مسلمان نہیں تھے۔ (شرح ابن بطال:55/2) 2۔ امام بخاری ؒ نے جس حدیث کو مدار استدلال بنایا ہے اس میں یہ ہے کہ قبلہ رخ ہوکر قضائے حاجت نہ کرو اور نہ پشت ہی اس طرف کرو بلکہ قضائے حاجت کرتے وقت مشرق یامغرب کی طرف منہ کرو۔ اس سے معلوم ہوا مدینہ منورہ اور اس کے مشرق ومغرب میں واقع شہروں کا قبلہ جنوب ہے۔ اس لیے ان کے لیے جنوب کی جہت بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے نہ پشت۔ ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ اور اس کے مشرقی شہروں کےعلاوہ جو شہر مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع ہیں ان کا قبلہ بھی جنوب یا شمال ہے مشرق ومغرب نہیں، لہذا ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے، سوائے ان لوگوں کے جو کعبے کی’’سیدھ‘‘ میں مشرق سے مغرب تک واقع ہیں، ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف منہ یا پشت کرنا جائز نہیں۔ (شرح ابن بطال:54/2) اب اگرامام بخاریؒ کی مراد صرف اہل مدینہ، اہل شام اور مدینے سے مشرق کی طرف والے بلادعرب ہوں تو بات صاف ہے اور اگرابن بطال والی توجیہ مراد ہوتو بھی کوئی حرج نہیں کہ مشرق ومغرب سے مراد مشرق ومغرب کی تمام سمتیں ہوسکتی ہیں۔ ٹھیک درمیانی خط مشرق اور خط مغرب کو چھوڑ کر جنوب وشمال کی طرف تھوڑا سا انحراف بھی بول وغائط کے وقت کافی ہے اور یہی تشریق وتغریب ہے جس میں خانہ کعبہ کی تعظیم کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔ چونکہ ٹھیک درمیانی خط والے بہ نسبت دوسروں کے بہت کم لوگ ہیں ان کی طرف گویا اس عام حکم میں کچھ تعرض نہیں کیا گیا۔ اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ توجہ الی الکعبہ کے لحاظ سے ساری دنیا کے لوگوں کی مثال مرکز کے گرد دائرے کی ہے۔ اب جو شخص کعبے سے مغربی جانب ہے اس کا قبلہ مشرق ہوگا اور جو مشرق کی جانب ہے اس کا قبلہ مغرب ہوگا۔ اگرروئے زمین کو دائرہ خیال کیاجائے توظاہر ہے کہ محیط کی طرف وسعت اورپھیلاؤ اور مرکز کی جانب تنگی اور سمٹاؤ ہوگا۔ انحراف کی صورت میں جہت قبلہ سے وہ انحراف مانا جائے گا جو ربع دائرہ کے بقدر ہو، کیونکہ کسی بھی دائرے کا مرکز سے زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ ربع تک ہی ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں خواہ مرکز سے جوانب دائرہ تک فاصلہ ایک میل ہو یا ہزاروں میل کا۔ اس بنا پر کعبے سے اوجھل نماز پڑھنے والے کا شرعی حکم ایک ہی رہے گا، خواہ وہ کعبے سے کتنے ہی فاصلے پر ہو کہ دائرہ کے چوتھائی (نوے درجے) سے کم انحراف ہوتواس کی نماز درست ہواور نوے درجے یا زیادہ کا انحراف ہوتو نماز صحیح نہیں ہوگی۔ یعنی کعبے سے 45 درجے تک دائیں طرف اور اتنا ہی بائیں طرف انحراف کا جواز ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
393
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
394
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
394
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
394
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
اس عنوان میں اہل مدینہ ،اہل شام بلکہ اہل مشرق کی سمت قبلہ بتانا مقصود ہے کہ ان کا قبلہ نہ مشرق میں ہے اور نہ مغرب میں بلکہ ان کاقبلہ جنوب میں ہے،اس لیے کہ مدینہ منورہ اورملک شام بلکہ مدینہ منورہ کے مشرقی بلادمکہ معظمہ سے شمال کی جانب واقع ہیں۔مکہ معظمہ ان کے جنوب میں ہے،اس لیے ان بلاد کا قبلہ مشرق ومغرب نہیں بلکہ جنوب ہوگا۔اس عنوان کو عموم پر محمول کرنادرست نہیں کہ دنیا میں کسی ملک کاقبلہ مشرق یا مغرب کی طرف نہیں بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر ،علامہ زمان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی اور پھر ان کے شہر بخارا کا قبلہ بھی بجانب مغرب ہے۔اس عموم پر محمول کرنے کا مفہوم یہ ہو گاکہ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے شہر کی سمت قبلہ کا پتہ نہیں،حالانکہ یہ بعید از قیاس ہے۔
اور ( مدینہ اور شام والوں کا ) قبلہ مشرق و مغرب کی طرف نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ( خاص اہل مدینہ سے متعلق اور اہل شام بھی اسی میں داخل ہیں ) کہ پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ نہ کرو، البتہ مشرق کی طرف اپنا منہ کر لو، یا مغرب کی طرف۔تشریح : مدینہ اور شام سے مکہ جنوب میں پڑتا ہے، اس لیے مدینہ اور شام والوں کو پاخانہ اور پیشاب مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرکے کرنے کا حکم ہوا لیکن جو لوگ مکہ سے مشرق یا مغرب میں رہتے ہیں ان کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ جنوب یا شمال کی طرف منہ کریں۔ امام بخاری کی مشرق اور مغرب میں قبلہ نہ ہونے سے یہی مراد ہے کہ ان لوگوں کا قبلہ مشرق اور مغرب نہیں ہے جو مکہ سے جنوب یاشمال میں رہتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو اور نہ اس کی طرف اپنی پشت ہی کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لو۔‘‘ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم ملک شام گئے تو ہم نے وہاں بیت الخلا قبلہ رخ پائے، چنانچہ ہم وہاں ترچھے ہو کر بیٹھتے اور حق تعالیٰ سے اس پر معافی مانگتے۔ امام زہری ؓ حضرت عطاء سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ایوب ؓ سے سنا، انھوں نے نبی ﷺ سے اس (روایت) کے مثل بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے مدینے کے مشرقی جانب والے شہروں کا قبلہ بتایا ہے جب کہ مغربی جانب والوں کا بھی قبلہ یہی ہے۔ اس کے متعلق ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ یہاں مشرق کا ذکر اکتفا کی قبیل سے ہے۔ کیونکہ مراد مشرق ومغرب دونوں ہیں، یعنی أحد المتقابلین کے ذکر پر اکتفا کرلیا یا اس لیے صرف مشرق کاذکر ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی آبادی زیادہ تر اسی جانب تھی، مغرب میں اتنے مسلمان نہیں تھے۔ (شرح ابن بطال:55/2) 2۔ امام بخاری ؒ نے جس حدیث کو مدار استدلال بنایا ہے اس میں یہ ہے کہ قبلہ رخ ہوکر قضائے حاجت نہ کرو اور نہ پشت ہی اس طرف کرو بلکہ قضائے حاجت کرتے وقت مشرق یامغرب کی طرف منہ کرو۔ اس سے معلوم ہوا مدینہ منورہ اور اس کے مشرق ومغرب میں واقع شہروں کا قبلہ جنوب ہے۔ اس لیے ان کے لیے جنوب کی جہت بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے نہ پشت۔ ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ اور اس کے مشرقی شہروں کےعلاوہ جو شہر مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع ہیں ان کا قبلہ بھی جنوب یا شمال ہے مشرق ومغرب نہیں، لہذا ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے، سوائے ان لوگوں کے جو کعبے کی’’سیدھ‘‘ میں مشرق سے مغرب تک واقع ہیں، ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف منہ یا پشت کرنا جائز نہیں۔ (شرح ابن بطال:54/2) اب اگرامام بخاریؒ کی مراد صرف اہل مدینہ، اہل شام اور مدینے سے مشرق کی طرف والے بلادعرب ہوں تو بات صاف ہے اور اگرابن بطال والی توجیہ مراد ہوتو بھی کوئی حرج نہیں کہ مشرق ومغرب سے مراد مشرق ومغرب کی تمام سمتیں ہوسکتی ہیں۔ ٹھیک درمیانی خط مشرق اور خط مغرب کو چھوڑ کر جنوب وشمال کی طرف تھوڑا سا انحراف بھی بول وغائط کے وقت کافی ہے اور یہی تشریق وتغریب ہے جس میں خانہ کعبہ کی تعظیم کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔ چونکہ ٹھیک درمیانی خط والے بہ نسبت دوسروں کے بہت کم لوگ ہیں ان کی طرف گویا اس عام حکم میں کچھ تعرض نہیں کیا گیا۔ اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ توجہ الی الکعبہ کے لحاظ سے ساری دنیا کے لوگوں کی مثال مرکز کے گرد دائرے کی ہے۔ اب جو شخص کعبے سے مغربی جانب ہے اس کا قبلہ مشرق ہوگا اور جو مشرق کی جانب ہے اس کا قبلہ مغرب ہوگا۔ اگرروئے زمین کو دائرہ خیال کیاجائے توظاہر ہے کہ محیط کی طرف وسعت اورپھیلاؤ اور مرکز کی جانب تنگی اور سمٹاؤ ہوگا۔ انحراف کی صورت میں جہت قبلہ سے وہ انحراف مانا جائے گا جو ربع دائرہ کے بقدر ہو، کیونکہ کسی بھی دائرے کا مرکز سے زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ ربع تک ہی ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں خواہ مرکز سے جوانب دائرہ تک فاصلہ ایک میل ہو یا ہزاروں میل کا۔ اس بنا پر کعبے سے اوجھل نماز پڑھنے والے کا شرعی حکم ایک ہی رہے گا، خواہ وہ کعبے سے کتنے ہی فاصلے پر ہو کہ دائرہ کے چوتھائی (نوے درجے) سے کم انحراف ہوتواس کی نماز درست ہواور نوے درجے یا زیادہ کا انحراف ہوتو نماز صحیح نہیں ہوگی۔ یعنی کعبے سے 45 درجے تک دائیں طرف اور اتنا ہی بائیں طرف انحراف کا جواز ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
(ان لوگوں کے) مشرق و مغرب میں قبلہ نہیں، اس لیے کہ نبی ﷺنے (ان سے) فرمایا: "جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو بلکہ مشرق و مغرب کی طرف منہ کر لو۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا ہم سے زہری نے عطاء بن یزید لیثی کے واسطہ سے، انھوں نے ابوایوب انصاری ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو اس وقت نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پیٹھ کرو۔ بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف اس وقت اپنا منہ کر لیا کرو۔ ابوایوب نے فرمایا کہ ہم جب شام میں آئے تو یہاں کے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے تھے ( جب ہم قضائے حاجت کے لیے جاتے ) تو ہم مڑ جاتے اور اللہ عزوجل سے استغفار کرتے تھے اور زہری نے عطاء سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا۔ اس میں یوں ہے کہ عطاء نے کہا میں نے ابوایوب سے سنا، انھوں نے اسی طرح آنحضرت ﷺ سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
اصل میں یہ حدیث ایک ہے جو دوسندوں سے روایت ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ سفیان نے علی بن عبداللہ مدینی سے یہ حدیث دوبار بیان کی، ایک بار میں توعن عطاءعن أبي أیوب کہا، اور دوسری بار میں سمعت أباأیوب کہا تو دوسری بار میں عطاء کے سماع کی ابوایوب سے وضاحت ہوگئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Aiyub Al-Ansari (RA): The Prophet (ﷺ) said, "While defecating, neither face nor turn your back to the Qibla but face either east or west." Abu Aiyub added. "When we arrived in Sham we came across some lavatories facing the Qibla; therefore we turned ourselves while using them and asked for Allah's forgiveness."