تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ نماز میں قبلے کی رعایت انتہائی ضروری ہے۔ حتی کہ اگرکوئی شخص بھول کر نماز سے خارج ہوگیا اور غیر قبلے کی طرف متوجہ ہوگیا پھر اسے احساس ہوا کہ اس نے غلطی سے سلام پھیردیا ہے تو اس صورت میں بھی وہ فوراً قبلہ روہوکر نماز پوری کرے اوراگر صرف سجدہ سہو کرنا ہو تو وہ بھی نماز ہی کاحصہ ہے، اس لیے سجدہ سہو بھی قبلہ روہوکر اداکرے، جیسا کے اس حدیث میں ہےکہ آپ نے نماز سے فراغت کے بعد منہ قبلے سے پھیر لیا تھا، بتانے پر نئے سرے سے قبلہ روہوکر نماز کی تکمیل فرمائی۔ 2 ۔ کسی چیز سے دل کا غافل ہوجانا نسیان ہے اور کسی چیز کا دل سے اوجھل ہوجانا سہو ہے۔ اگرنمازی کو سہو نسیان کی وجہ سے اپنی نماز کے متعلق شک پڑ جائے تو سوچ وبچار کرکے صحیح اور درست بات کو متعین کرنا تحری کہلاتا ہے۔ اسے ظن غالب بھی کہتے ہیں۔ حدیث کے مطابق نمازی کو ایسے حالات میں تحری سے کام لینا چاہیے۔ اگرتحری سے کوئی جانب راجح ہوجائے توآئندہ اسی غلبہ ظن پر بنیاد رکھتے ہوئے نماز کو مکمل کرلیا جائے۔ اگر دونوں جانب برابر ہوں، کوئی ایک جانب راجح نہ قرارپاسکے تو جانب اقل پر عمل کرے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اگرتعداد رکعات کے متعلق تین یاچار کا شک ہوتو جانب اقل تین پر بنیاد قائم کرکے نماز مکمل کی جائے، یعنی تحري إلی الصواب اور أخذ بالأقل دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ تحري إلی الصواب کو أخذ بالأقل پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ جیسا کہ بعض اہل علم کاموقف ہے۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضرات انبیاء علیہم السلام سے بھی سہو ہوسکتاہے، لیکن یہ سہو ونسیان اعمال کے معاملے میں تو ممکن ہے، تبلیغ کے معاملے میں ہرگز ممکن نہیں، کیونکہ اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اٹھائی ہے، قرآن مجید میں ہے کہ قرآن کریم کا بیان، یعنی کھول کر واضح کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اعمال کے معاملے میں انبیاء علیہم السلام کو جو سہو پیش آیا ہے وہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا پیش نظر آیا ہے تاکہ عام مسلمانوں کوعملی طور پر مسائل سہو کی تعلیم دی جاسکے۔ (فتح الباري:653/1) 4۔ راوی حدیث حضرت منصور جب اپنے شیخ ابراہیم نخعی سے بیان کرتے ہیں تو سجدہ سہو کے سبب کے متعلق شک ہوتا ہے کہ وہ تعداد رکعات میں اضافے کی وجہ سے تھا یا کم ہونے کی بناپر لیکن، آئندہ روایت میں جب ان سے حضرت حکم بیان کرتے ہیں تو یقین سے بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہرکی پانچ رکعات پڑھاد ی تھیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ابراہیم نخعی ؒ نے جب اپنے شاگرد حکم کو حدیث بیان کی تو سجدے کی بنیاد کو جزم ووثوق سے بیان کیا اور جب اپنے شاگرد منصور کی حدیث بیان کی تو شک پڑ گیا کہ تعداد رکعات میں اضافہ ہوگیاتھا یا کہ کمی واقع ہوگئی تھی۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري:563/1) 5۔ رسول اللہ ﷺ کو دوران نماز میں زندگی بھر چاردفعہ سہو ہوا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1۔ ظہر کی نماز میں قعدہ اول میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہوگئے۔ (صحیح البخاري،السھو، حدیث:1225) 2۔ ظہرکی پانچ رکعات پڑھادیں۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1226) 3۔ ظہر کی چار رکعات کے بجائے دوپرسلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1227) 4۔ عصر کی نماز میں تین رکعات پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1293۔ (574)) سہو ونسیان کے متعلق مکمل بحث آئندہ کتاب السهو میں ہوگی۔بإذن اللہ تعالیٰ۔