تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے عنوان سے اس حدیث کی مطابقت بایں الفاظ ذکر کی ہے کہ آیت مذکور میں"مقام ابراهیم" سے مرادکعبہ شریف ہے۔ جیسا کہ اس کی تفسیر میں یہ قول نقل ہوا ہے اور یہ باب بھی قبلے کے متعلق ہے۔ یا اس سے مراد کل حرم ہے۔ اس صورت میں من تبیضیہ ہوگا اور مصلی سے مرادقبلہ ہے جو آفاق والوں کے حق میں ہے۔ یا اس سے مراد وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم ؑ نے کھڑے ہوکر بیت اللہ کی تعمیر کی تھی۔ اس صورت میں مطابقت قبلہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ متعلقات قبلہ کے لحاظ سے ہوگی۔ (فتح الباري:655/1) علامہ کرمانی ؒ نے امام خطابی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھاکہ جس پتھر پر حضرت ابراہیم ؑ کے پاؤں کے نشانات ثبت ہیں، اسے قبلے کے سامنے جائے نماز بنایا جائے، یعنی امام اس کے پاس کھڑا ہوتو اس خواہش کے احترام میں مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ (شرح الکرماني:67/4) 2۔ حمید طویل نے حضرت انس ؓ سے یہ روایت بصیغہ عَن بیان کی ہے۔ اس انداز میں تدلیس کا شبہ تھا۔ اس کے ازالے کے لیے امام بخاری ؒ نے ابن ابی مریم کا طریق بیان کیا ہے جس میں حمید طویل اپنے سماع کی صراحت کرتے ہوئے حضرت انس ؓ سے بیان کرتے ہیں۔ (فتح الباري:655/1) امام بخاری ؒ کا اس مقام پر یہ روایت لانے کا اتنا ہی مقصد تھا جوہم نے بیان کردیا ہے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب المناقب میں بیان ہو گی۔ وہاں ہم ثابت کریں گے کہ حضرت عمر ؓ واقعی اس امت میں فتن ومحن کی روک تھام کے لیے ایک دروازے کی حیثیت رکھتے تھے۔ بدقسمتی سے اس دروازے کو بزور توڑا گیا۔ اس دروازے کو توڑنے کا پس منظر، پیش منظر اور تہ منظر ہم وہاں بیان کریں گے اور ان عوامل ومحرکات سے پردہ اٹھائیں گے جو اس واقعہ جانکاہ میں کارفرماتھے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔ 3۔ واضح رہے کہ حضر ت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ کبھی بھی کوئی ایساحادثہ پیش نہیں آیا جس میں دوسروں نے ایک رائے دی ہو اور حضرت عمر ؓ نے کسی دوسری رائے کا اظہار کیا ہو مگر قرآن مجید حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق اترتا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث:3682) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرت موافقت حضرت عمر ؓ کے حق میں ہے، لیکن نقل کے اعتبار سے تعین کے ساتھ پندرہ چیزوں میں موافقت ہمارے علم میں آئی ہے۔ جسے"موافقات عمر" کا نا م دیا جاسکتاہے۔ (فتح الباري:654/1) موافقات عمر کی تشریح بھی کتاب المناقب میں بیان ہوگی۔ إن شاء اللہ۔ 4۔ بعض اہل علم کی طرف سے امام بخاریؒ پر یہ اعتراض ہوا کہ اس حدیث کو سابق باب میں لانا چاہیے تھا جو اس آیت کے متعلق ہی قائم کیاگیا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہاں حدیث ابن عمر ؓ بیان کی ہے جس میں صراحت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے طواف کی دورکعت میں مقام ابراہیم کوقبلہ نماز بنایا جبکہ حدیث عمر میں اس قسم کی صراحت نہ تھی، اس لیے اسے یہاں متعلقات قبلہ کے سلسلے میں بیان کیاگیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 654۔655/1)