تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ جہل نسیان کو عذرٹھہرانے میں کچھ زیادہ ہی وسیع النظر ہیں، چنانچہ انھوں نے اس مقام پر ایک مستقل عنوان قائم کرکے بتایاگیا کہ اگرسہوونسیان کی وجہ سے کوئی شخص غیر قبلہ کی طرف بھی نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز درست ہوگی۔ حدیث ابن عمر ؓ سے یہی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ کعبہ معظمہ کی طرف رخ کرنے کا حکم آجانے کے باوجود اہل قباء نے لاعلمی کی وجہ سے نماز قبلہ منسوخہ کی طرف منہ کرکے ادا کی اور ناواقفیت کی وجہ سے وہ بھولنے والے کے حکم میں تھے، اس لیے انھیں نمازکے اعادے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اسی طرح یہ حدیث عنوان کے پہلے جز پر بھی دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس میں بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ (فتح الباري:657/1) حضرت ثویلہ بنت اسلم ؓ دوران نماز میں تحویل کی کی کیفیت بیان کرتی ہیں کہ عورتیں مردوں کی جگہ اور مردعورتوں کی جگہ پر منتقل ہوگئے اور ہم نے دورکعت استقبال کعبہ کے ساتھ ادا کیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ذرا تفصیل بیان کی ہے کہ امام مسجد کے اگل حصے سے پچھلے حصے کی طرف آیا، کیونکہ اسی مقام پر تحویل کے لیے جگہ ناکافی تھی، اس کے بعد آدمی اور پھر عورتیں ایک دوسرے کے پیچھے ہوگئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مکلف کے لیے ناسخ کے حکم کی پابندی اس وقت ہوگی جب اسے معلوم ہوگا، اس سے پہلے وہ اس کا پابند نہیں ہے۔ (فتح الباري:656/1) 3۔ اہل قباء نے نماز کا کچھ حصہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے ادا کیا، ان کا یہ عمل ان کے یقین کے مطابق صحیح اوردرست تھا، اس لیے اس حصے کا اعادہ نہیں کرایا گیا۔ تحری میں بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان غوروفکر کے بعد ایک سمت کو قبلہ قراردیتا ہے اور اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے۔ جیساکہ اہل قباء نے اپنے یقین کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز کا کچھ حصہ اداکیا اور اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کبھی سوال نہیں ہوا اور نہ آپ نے انھیں اعادے ہی کا حکم دیا۔