تشریح:
1۔ بنولؤی قریش کے لوگوں کوکہتے ہیں۔ ان میں اور بنونضیر میں عہد وپیمان تھا۔ حضرت حسان ؓ انھیں عاردلاتے ہیں اور ان کی ہجو کرتے ہیں کہ وہ بنونضیر کی کوئی مدد نہ کرسکے۔ ان کے دوستوں کے باغ جلتے رہے وہاں کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔ ابوسفیان بن حارث اس وقت مسلمان نہ تھے۔ ان کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آگ کا پھیلنا ہمیں کوئی نقصان نہیں دے گا۔کیونکہ ہماری ارض مکہ تو بہت دور ہے، البتہ اس آگ کا پھیلاؤ تمھیں نقصان دے گا کہ تمہارے گھر ہی اس آگ میں جلیں گے۔ ہمارے گھروں تک یہ آگ نہیں پہنچے گی۔ ابوسفیان کی یہ بددعا مردود ہوگئی کیونکہ مدینہ طیبہ آج بھی جنت کی فضا رکھتا ہے۔
2۔بہرحال بنوقینقاع کی جلاوطنی کے بعد بنونضیر کو بھی مدینہ سے رسواکرکے نکالاگیا۔ رہے بنوقریظہ توان کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل سورہ احزاب (آیت:26) میں بیان ہوئی ہے، جس کی تشریح ہم آئندہ کریں گے۔ ان شاء اللہ۔