قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ الزُّهْرِيُّ: عَنْ عُرْوَةَ: «كَانَتْ عَلَى رَأْسِ سِتَّةِ أَشْهُرٍ مِنْ وَقْعَةِ بَدْرٍ، قَبْلَ أُحُدٍ» وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا} [الحشر: 2] وَجَعَلَهُ ابْنُ إِسْحَاقَ بَعْدَ بِئْرِ مَعُونَةَ، وَأُحُدٍ

4032. حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا حَبَّانُ أَخْبَرَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ قَالَ وَلَهَا يَقُولُ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ قَالَ فَأَجَابَهُ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ أَدَامَ اللَّهُ ذَلِكَ مِنْ صَنِيعٍ وَحَرَّقَ فِي نَوَاحِيهَا السَّعِيرُ سَتَعْلَمُ أَيُّنَا مِنْهَا بِنُزْهٍ وَتَعْلَمُ أَيُّ أَرْضَيْنَا تَضِيرُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور رسول اللہ ﷺ کا دو مسلمانوں کی دیت کے سلسلے میں ان کے پاس جانا اور آنحضرت ﷺکے ساتھ ان کا دغابازی کرنا ۔ زہری نے عروہ سے بیان کیا کہ غزوہ بنو نضیر ، غزوہ بدر کے چھ مہینے بعد اور غزوہ احد سے پہلے ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” اللہ ہی وہ ہے جس نے نکالا ان لوگوں کو جو کافر ہوئے اہل کتاب سے ان کے گھروں سے اور یہ ( جزیرہ عرب سے ) انکی پہلی جلا وطنی ہے “ ابن اسحاق کی تحقیق میں یہ غزوہ غزوہ بئر معونہ اور غزوہ احد کے بعد ہوا تھا ۔تشریح:قبیلہ بنو نضیر ان کافروں میں سے تھے جن کا آنحضرتﷺ سے عہد وپیمان تھا کہ نہ خود آپ سے لڑیں گے نہ آپ کے دشمنوں کو مدد دیں گے ایسا ہوا کہ عامر بن طفیل نے جب قاریوں کو بیئر معونہ کے قریب فریب و دغا سے مار ڈالا تھا تو عمرو بن امیہ ضمیری کو جو مسلمان تھے اپنی ماں کی منت میں آزاد کردیا۔راستے میں ان کو بنو عامر کے دو شخص ملے انہوں نے سوتے میں ان کو مار ڈالا اور سمجھے میں نے بنو عامر سے جن میں کا ایک عامر بن طفیل تھا بدلہ لیا تھا۔آنحضرتﷺ کو مدینہ میں آکر خبر کی ان کو یہ خبر نہ تھی کہ آنحضرتﷺ اور ان کے مردوں سے عہدوپیمان ہے۔آپ نے عمرو سے فرمایا میں ان دو شخصوں کی دیت دوں گا بنو نضیر بھی بنوعامرکے ساتھ عبد رکھتے تھے آپ بنی نضیر کے پاس اس دیت میں مدد لینے کو تشریف لےگئے۔ان بدمعاشوں نے آپ کو اور آپ کے اصحاب کو بٹھایا اور ظاہر میں امداد کا وعدہ کیا لیکن درپردہ یہ صلاح کی کہ آپ دیوار کے تلے بیٹھے تھے دیوار سے ایک پتھر آپ پر پھینک کر آپ کو شہید کر دیں۔اللہ نے جبرئیل کے ذریعے سے آپ کو آگاہ کر دیا آپ وہاں سے ایک دم اٹھ کر مدینہ روانہ ہوگئے اور دیگر صحابی بھی۔موقع آنے پر آپ نے ان بدمعاشوں پر چڑھائی کرنے کا حکم دے دیا۔ اسی واقعہ کی کچھ تفصیلات یہاں مذکور ہیں یہود کا پہلا اخرج عرب سے شام کے ملک میں ہوا‘پھر عہد فاروقی میں دوسرا اخرج خیبر سے شام کے ملک کو ہوا۔بعضوں نے کہا دوسرے اخراج سے قیامت کا حشرہ مراد ہے یہ آیت بنی نضیر کے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔

4032.

حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو آگ لگائی تو اس کے متعلق حسان بن ثابت ؓ نے کہا: بنو لؤی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کر رہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آ کر جل رہا ہے۔ ابو سفیان بن حارث نے یہ جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ کرے مدینہ میں یوں آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھتے رہیں۔ تمہیں جلدی معلوم ہو جائے گا کہ ہماری کس زمین کو نقصان پہنچتا ہے۔