تشریح:
1- طائفتان سے مراد بنو حارثہ اور بنو سلمہ انصار کے دو قبیلے ہیں جو عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کے راستے مدینہ طیبہ واپسی کے وقت پھسلنے لگے تھے۔ دونوں قبیلے بھی واپسی کے لیے تیار ہو گئے لیکن سمجھانے کے بعد وہ اس اقدام سے رک گئے۔
2۔ کسی آیت کا اس انداز سے نازل ہونا کہ اس میں کسی کا عیب یا قباحت مذکورہوا۔ اسے ناگوار گزرتا ہے، مگر آیت کے آخری حصے میں ان کی تسلی نازل ہوئی تو پہلے حصے میں جو گناہ معلوم ہوتا ہے وہ آخری حصے سے ختم ہوگیا ،ممکن ہے کہ صرف دل میں خیال آیا ہو، اگر مصم ارادہ ہوتا تو اس پر ضرور مؤاخذ ہ ہوتا کیونکہ جہاد سے علیحدگی اختیار کرنا اور رسول اللہ ﷺ سے موافقت نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے کبائر کے مرتکب سے اللہ تعالیٰ نہ محبت کرتا ہے اور نہ ان کی مدد ہی کرتا ہے۔ بہر حال اس آیت کریمہ میں ان کے لیے خوش خبری ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے تعریف سے مشرف ہوئے ہیں اور ان سے اس برے خیال پر مؤاخذ ہ نہیں کیا گیا کیونکہ یہ خیال عزم اور صمیم قلب سے نہ تھا۔ واللہ اعلم۔