تشریح:
1۔ حضرت حذیفہ ؓکے والد گرامی حضرت یمان ؓ اور حضرت ثابت بن وقش بوڑھے تھے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں بچوں اور عورتوں میں ٹھہرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ انھوں نے شہادت لینے کے لیے تلواریں اٹھائیں اور ہزیمت کے بعد مسلمانوں سے جا ملے۔ مسلمانوں نے انھیں نہ پہچانا۔ حضرت ثابت کو تو مشرکین نے شہید کیا لیکن حضرت یمان ؓ پر مسلمانوں کی تلواریں برسنے لگیں۔ چونکہ ہیجان کا وقت تھا اس لیے مسلمانوں نے حضرت حذیفہ ؓ کی آواز پر کان نہ دھرا اور ان کے والد کو غلطی سےقتل کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا خون بہا دینا چاہا لیکن حضرت حذیفہ ؓ نے معاف کردیا۔ جس نے حضرت یمان ؓ کو غلطی سے قتل کیا تھا۔ وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے بھائی حضرت عتبہ بن مسعود ؓ تھے۔ (فتح الباري:453/7)
2۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ روایت میں کوئی لفظ قابل تفسیر ہو تو قرآن مجید کے حوالے سے اس کی لغوی تحقیق کر دیتے ہیں فرمایا: کہ ( بَصُرْتُ) جب مجرد باب سے ہو تو اس کے معنی بصیرت یعنی دل سے دیکھنا ہیں اور جب مزید فیه کا باپ ہو تو اس کے معنی بصارت یعنی آنکھ سے دیکھا ہیں بعض نے یہ بھی کہا کہ مجرد اور مزید فیہ دونوں ایک ہی معنی دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ’’سامری نے کہا: میں نے وہ چیز دیکھی جو دوسروں کو نظر نہ آئی۔‘‘ (طٰه:96)