تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ جس شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے حضرت عثمان ؓ کے متعلق تین سوالات کیے تھے میں اس کے نام سے مطلع نہیں ہو سکا۔روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اہل مصر سے تھا ممکن ہے کہ وہ علاء بن عرارہو۔(فتح الباري:75/7) پھر دوسرے مقام پر جزم ووثوق سے لکھا ہے کہ اس کا نام حکیم تھا۔لیکن انھوں نے اس سے رجوع کرتے ہوئے فرمایا: کہ وہ علاء بن عرار ہی تھا۔(فتح الباري:454/7)بہر حال وہ حضرت عثمان ؓ کے مخالفین میں سے تھا جو واقعات کی ظاہری سطح کو بیان کر کے حضرت عثمان ؓ کی برائی کرنا چاہتا تھا2۔دراصل غزوہ احد کے موقع پر عام مسلمانوں میں کفار کے اچانک حملے کی وجہ سے گھبراہٹ پھیل گئی تھی، البتہ رسول اللہ ﷺ اپنے چند ایک صحابہ سمیت کفار کے تمام حملوں کا انتہائی پامردی سے مقابلہ کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے تھوڑی دیر کے بعد اپنے صحابہ کرام ؓ کو آواز دی تمام صحابہ کرام جمع ہو گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام ؓ کی اس غلطی کو معاف کردیا اور اس معافی کا اعلان اپنی کتاب میں کردیا جیسا کہ عنوان میں ذکر کردہ آیت سے واضح ہےلیکن خارجی حضرات نے اللہ تعالیٰ کی اس معافی سے اتفاق نہیں کیا۔ وہ بدستور حضرت عثمان ؓ پر"فرار"کا الزام لگاتے رہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو انھیں معاف کردیا ہے لیکن تم لوگ انھیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4515) 3۔حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ان اعتراضات کا شافی جواب دیا تاکہ صحابہ کرام ؓ کے متعلق لوگوں کے فاسد اعتقاد کا ازالہ ہو جائے اور حضرت عثمان کے متعلق بدگمانی کو نکال دیا جائے مگر جن لوگوں کو کسی سے ناحق بغض ہوتا ہے وہ کسی طور پر مطمئن نہیں ہو سکتے ۔آج بھی کچھ ایسے کم فہم لوگ موجود ہیں۔ جو سانپ نکل جانے کے بعد لکیر کو پیٹ رہے ہیں اور صحابہ کرام ؓ پر طعن کرنے میں بڑا فخر سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی لغزشیں معاف کر دینے کا واضح طور پر اعلان کردیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمھیں معاف کردیا ہے کیونکہ وہ اہل ایمان کے لیے بڑے فضل والا ہے۔‘‘ (آل عمران:152/3)اللہ تعالیٰ نے معافی کے اس اعلان کے بعد صحابہ کرام ؓ کے متعلق خبث باطن رکھنے اور زبان درازی کی گنجائش ختم کردی ہے۔ واللہ اعلم۔