قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:{إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ التَقَى الجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ} [آل عمران: 155])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4066. حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَوْهَبٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ مَنْ هَؤُلَاءِ الْقُعُودُ قَالُوا هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ قَالَ مَنْ الشَّيْخُ قَالُوا ابْنُ عُمَرَ فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ أَتُحَدِّثُنِي قَالَ أَنْشُدُكَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَتَعْلَمُهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَخَلَّفَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَكَبَّرَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ لِأُخْبِرَكَ وَلِأُبَيِّنَ لَكَ عَمَّا سَأَلْتَنِي عَنْهُ أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ مَرِيضَةً فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُ فَبَعَثَ عُثْمَانَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَمَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ فَقَالَ هَذِهِ لِعُثْمَانَ اذْهَبْ بِهَذَا الْآنَ مَعَكَ

مترجم:

4066.

حضرت عثمان بن موہب سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک شخص بیت اللہ کا حج کرنے آیا تو کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس نے پوچھا: یہ بیٹھے ہوئے لوگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ قریش ہیں۔ اس نے پھر پوچھا: یہ بوڑھا بزرگ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ حضرت ابن عمر ؓ ہیں۔ وہ آپ کے پاس آ کر کہنے لگا: میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں کیا آپ مجھے جواب دیں گے؟ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اس گھر کی حرمت و عزت کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو علم ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ اُحد کی لڑائی سے بھاگ گئے تھے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ غزوہ بدر میں بھی موجود نہیں تھے بلکہ غیر حاضر تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر اس نے کہا: کیا آپ کے علم میں ہے کہ وہ بیعت رضوان سے بھی پیچھے رہ گئے تھے اور وہاں حاضر نہ تھے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ تب اس نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ادھر آ! میں تجھے بتاؤں اور جو تو نے سوال کیا اس کی حقیقت سے آگاہ کروں۔ رہا حضرت عثمان ؓ کا اُحد کے دن راہ فرار اختیار کرنا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نےانہیں معاف کر دیا ہے۔ اور ان کا غزوہ بدر سے غائب رہنا اس وجہ سے تھا کہ ان کی شریک حیات جو رسول اللہ ﷺ کی صاجزادی تھیں وہ بیمار تھیں۔ نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’اے عثمان! تم ان کی تیمارداری کرو۔ تمہیں شرکائے بدر کے برابر ثواب ملے گا اور ان کے حصے کے برابر تمہیں مال غنیمت بھی ملے گا۔‘‘  اور بیعت رضوان سے ان کا پیچھے رہنا اس وجہ سے تھا کہ اگر مکہ مکرمہ میں کوئی شخص حضرت عثمان بن عفان ؓ سے عزیز تر ہوتا تو آپ ﷺ ان کی جگہ اسے مکے بھیجتے۔ آپ نے حضرت عثمان ؓ کو بھیجا اور بیعت رضوان ان کے مکہ جانے کے بعد عمل میں آئی اور نبی ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔‘‘  اور اسے اپنے دست اقدس پر رکھتے ہوئے فرمایا: ’’یہ عثمان کی بیعت ہے۔‘‘  اب ان جوابات کو ساتھ لے جاؤ اور جو کچھ دل میں آئے کہتے پھرو۔