باب: ہر مقام اور ہر ملک میں مسلمان جہاں بھی رہے نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: [During the obligatory Salat (prayers)] one should face the Qiblah (Kabah at Makkah) wherever one may be)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کعبہ کی طرف منہ کر اور تکبیر کہہ۔تشریح : اس حدیث کو خودامام بخاری نے کتاب الاستیذان میں نکالا ہے۔ مقصد ظاہر ہے کہ دنیائے اسلام کے لیے ہر ہر ملک سے نماز میں سمت کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہے اس لیے کہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ناممکن ہے۔ ہاں جو لوگ حرم میں ہوں اور کعبہ نظروں کے سامنے ہو ان کو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ نماز میں کعبہ کی طرف توجہ کرنا اور تمام عالم کے لیے کعبہ کومرکز بنانا اسلامی اتحاد ومرکزیت کا ایک زبردست مظاہر ہ ہے۔ کاش! مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور ملی طور پر اپنے اندر مرکزیت پیدا کریں۔
407.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے نماز پڑھی۔ راوی حدیث ابراہیم نخعی کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ آپ نے نماز میں اضافہ کر دیا تھا یا کچھ کمی کر دی تھی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے؟آپ نے فرمایا:’’بتاؤ اصل بات کیاہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: آپ نے اس قدر نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنے دونوں پاؤں موڑے اور قبلہ رو ہو کر دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا اورہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اگر نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آتا تو میں تمہیں ضرورمطلع کرتا، لیکن میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔ اور جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے تو اسے چاہیے کہ صحیح حالت معلوم کرنے کی کوشش کرے، پھر اسی پر اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیر دے، اس کے بعد دو سجدے کرے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ نماز میں قبلے کی رعایت انتہائی ضروری ہے۔ حتی کہ اگرکوئی شخص بھول کر نماز سے خارج ہوگیا اور غیر قبلے کی طرف متوجہ ہوگیا پھر اسے احساس ہوا کہ اس نے غلطی سے سلام پھیردیا ہے تو اس صورت میں بھی وہ فوراً قبلہ روہوکر نماز پوری کرے اوراگر صرف سجدہ سہو کرنا ہو تو وہ بھی نماز ہی کاحصہ ہے، اس لیے سجدہ سہو بھی قبلہ روہوکر اداکرے، جیسا کے اس حدیث میں ہےکہ آپ نے نماز سے فراغت کے بعد منہ قبلے سے پھیر لیا تھا، بتانے پر نئے سرے سے قبلہ روہوکر نماز کی تکمیل فرمائی۔ 2 ۔ کسی چیز سے دل کا غافل ہوجانا نسیان ہے اور کسی چیز کا دل سے اوجھل ہوجانا سہو ہے۔ اگرنمازی کو سہو نسیان کی وجہ سے اپنی نماز کے متعلق شک پڑ جائے تو سوچ وبچار کرکے صحیح اور درست بات کو متعین کرنا تحری کہلاتا ہے۔ اسے ظن غالب بھی کہتے ہیں۔ حدیث کے مطابق نمازی کو ایسے حالات میں تحری سے کام لینا چاہیے۔ اگرتحری سے کوئی جانب راجح ہوجائے توآئندہ اسی غلبہ ظن پر بنیاد رکھتے ہوئے نماز کو مکمل کرلیا جائے۔ اگر دونوں جانب برابر ہوں، کوئی ایک جانب راجح نہ قرارپاسکے تو جانب اقل پر عمل کرے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اگرتعداد رکعات کے متعلق تین یاچار کا شک ہوتو جانب اقل تین پر بنیاد قائم کرکے نماز مکمل کی جائے، یعنی تحري إلی الصواب اور أخذ بالأقل دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ تحري إلی الصواب کو أخذ بالأقل پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ جیسا کہ بعض اہل علم کاموقف ہے۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضرات انبیاء علیہم السلام سے بھی سہو ہوسکتاہے، لیکن یہ سہو ونسیان اعمال کے معاملے میں تو ممکن ہے، تبلیغ کے معاملے میں ہرگز ممکن نہیں، کیونکہ اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اٹھائی ہے، قرآن مجید میں ہے کہ قرآن کریم کا بیان، یعنی کھول کر واضح کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اعمال کے معاملے میں انبیاء علیہم السلام کو جو سہو پیش آیا ہے وہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا پیش نظر آیا ہے تاکہ عام مسلمانوں کوعملی طور پر مسائل سہو کی تعلیم دی جاسکے۔ (فتح الباري:653/1) 4۔ راوی حدیث حضرت منصور جب اپنے شیخ ابراہیم نخعی سے بیان کرتے ہیں تو سجدہ سہو کے سبب کے متعلق شک ہوتا ہے کہ وہ تعداد رکعات میں اضافے کی وجہ سے تھا یا کم ہونے کی بناپر لیکن، آئندہ روایت میں جب ان سے حضرت حکم بیان کرتے ہیں تو یقین سے بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہرکی پانچ رکعات پڑھاد ی تھیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ابراہیم نخعی ؒ نے جب اپنے شاگرد حکم کو حدیث بیان کی تو سجدے کی بنیاد کو جزم ووثوق سے بیان کیا اور جب اپنے شاگرد منصور کی حدیث بیان کی تو شک پڑ گیا کہ تعداد رکعات میں اضافہ ہوگیاتھا یا کہ کمی واقع ہوگئی تھی۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:563/1) 5۔ رسول اللہ ﷺ کو دوران نماز میں زندگی بھر چاردفعہ سہو ہوا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1۔ ظہر کی نماز میں قعدہ اول میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہوگئے۔ (صحیح البخاري،السھو، حدیث:1225) 2۔ ظہرکی پانچ رکعات پڑھادیں۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1226) 3۔ ظہر کی چار رکعات کے بجائے دوپرسلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1227) 4۔ عصر کی نماز میں تین رکعات پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1293۔ (574)) سہو ونسیان کے متعلق مکمل بحث آئندہ کتاب السهو میں ہوگی۔بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
400
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
401
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
401
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
401
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کعبہ کی طرف منہ کر اور تکبیر کہہ۔تشریح : اس حدیث کو خودامام بخاری نے کتاب الاستیذان میں نکالا ہے۔ مقصد ظاہر ہے کہ دنیائے اسلام کے لیے ہر ہر ملک سے نماز میں سمت کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہے اس لیے کہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ناممکن ہے۔ ہاں جو لوگ حرم میں ہوں اور کعبہ نظروں کے سامنے ہو ان کو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ نماز میں کعبہ کی طرف توجہ کرنا اور تمام عالم کے لیے کعبہ کومرکز بنانا اسلامی اتحاد ومرکزیت کا ایک زبردست مظاہر ہ ہے۔ کاش! مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور ملی طور پر اپنے اندر مرکزیت پیدا کریں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے نماز پڑھی۔ راوی حدیث ابراہیم نخعی کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ آپ نے نماز میں اضافہ کر دیا تھا یا کچھ کمی کر دی تھی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے؟آپ نے فرمایا:’’بتاؤ اصل بات کیاہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: آپ نے اس قدر نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنے دونوں پاؤں موڑے اور قبلہ رو ہو کر دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا اورہم سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اگر نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آتا تو میں تمہیں ضرورمطلع کرتا، لیکن میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول کا شکار ہو جاتا ہوں، اس لیے جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔ اور جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے تو اسے چاہیے کہ صحیح حالت معلوم کرنے کی کوشش کرے، پھر اسی پر اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیر دے، اس کے بعد دو سجدے کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ نماز میں قبلے کی رعایت انتہائی ضروری ہے۔ حتی کہ اگرکوئی شخص بھول کر نماز سے خارج ہوگیا اور غیر قبلے کی طرف متوجہ ہوگیا پھر اسے احساس ہوا کہ اس نے غلطی سے سلام پھیردیا ہے تو اس صورت میں بھی وہ فوراً قبلہ روہوکر نماز پوری کرے اوراگر صرف سجدہ سہو کرنا ہو تو وہ بھی نماز ہی کاحصہ ہے، اس لیے سجدہ سہو بھی قبلہ روہوکر اداکرے، جیسا کے اس حدیث میں ہےکہ آپ نے نماز سے فراغت کے بعد منہ قبلے سے پھیر لیا تھا، بتانے پر نئے سرے سے قبلہ روہوکر نماز کی تکمیل فرمائی۔ 2 ۔ کسی چیز سے دل کا غافل ہوجانا نسیان ہے اور کسی چیز کا دل سے اوجھل ہوجانا سہو ہے۔ اگرنمازی کو سہو نسیان کی وجہ سے اپنی نماز کے متعلق شک پڑ جائے تو سوچ وبچار کرکے صحیح اور درست بات کو متعین کرنا تحری کہلاتا ہے۔ اسے ظن غالب بھی کہتے ہیں۔ حدیث کے مطابق نمازی کو ایسے حالات میں تحری سے کام لینا چاہیے۔ اگرتحری سے کوئی جانب راجح ہوجائے توآئندہ اسی غلبہ ظن پر بنیاد رکھتے ہوئے نماز کو مکمل کرلیا جائے۔ اگر دونوں جانب برابر ہوں، کوئی ایک جانب راجح نہ قرارپاسکے تو جانب اقل پر عمل کرے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اگرتعداد رکعات کے متعلق تین یاچار کا شک ہوتو جانب اقل تین پر بنیاد قائم کرکے نماز مکمل کی جائے، یعنی تحري إلی الصواب اور أخذ بالأقل دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ تحري إلی الصواب کو أخذ بالأقل پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ جیسا کہ بعض اہل علم کاموقف ہے۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضرات انبیاء علیہم السلام سے بھی سہو ہوسکتاہے، لیکن یہ سہو ونسیان اعمال کے معاملے میں تو ممکن ہے، تبلیغ کے معاملے میں ہرگز ممکن نہیں، کیونکہ اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اٹھائی ہے، قرآن مجید میں ہے کہ قرآن کریم کا بیان، یعنی کھول کر واضح کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اعمال کے معاملے میں انبیاء علیہم السلام کو جو سہو پیش آیا ہے وہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا پیش نظر آیا ہے تاکہ عام مسلمانوں کوعملی طور پر مسائل سہو کی تعلیم دی جاسکے۔ (فتح الباري:653/1) 4۔ راوی حدیث حضرت منصور جب اپنے شیخ ابراہیم نخعی سے بیان کرتے ہیں تو سجدہ سہو کے سبب کے متعلق شک ہوتا ہے کہ وہ تعداد رکعات میں اضافے کی وجہ سے تھا یا کم ہونے کی بناپر لیکن، آئندہ روایت میں جب ان سے حضرت حکم بیان کرتے ہیں تو یقین سے بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ظہرکی پانچ رکعات پڑھاد ی تھیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ ابراہیم نخعی ؒ نے جب اپنے شاگرد حکم کو حدیث بیان کی تو سجدے کی بنیاد کو جزم ووثوق سے بیان کیا اور جب اپنے شاگرد منصور کی حدیث بیان کی تو شک پڑ گیا کہ تعداد رکعات میں اضافہ ہوگیاتھا یا کہ کمی واقع ہوگئی تھی۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:563/1) 5۔ رسول اللہ ﷺ کو دوران نماز میں زندگی بھر چاردفعہ سہو ہوا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1۔ ظہر کی نماز میں قعدہ اول میں بیٹھنے کی بجائے کھڑے ہوگئے۔ (صحیح البخاري،السھو، حدیث:1225) 2۔ ظہرکی پانچ رکعات پڑھادیں۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1226) 3۔ ظہر کی چار رکعات کے بجائے دوپرسلام پھیر دیا۔ (صحیح البخاري، السھو، حدیث:1227) 4۔ عصر کی نماز میں تین رکعات پر سلام پھیر دیا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1293۔ (574)) سہو ونسیان کے متعلق مکمل بحث آئندہ کتاب السهو میں ہوگی۔بإذن اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:"(پہلے) قبلے کی طرف منہ کرو پھر تکبیر تحریمہ کہو۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے، کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے نماز پڑھائی۔ ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیادتی ہوئی یا کمی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ نے فرمایا :آخر کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور ( سہو کے ) دو سجدے کئے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی ضرور کہہ دینا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے ( سہو کے ) کر لے۔
حدیث حاشیہ:
بخاری شریف ہی کی ایک دوسری حدیث میں خودابراہیم سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے بجائے چار کے پانچ رکعت نماز پڑھ لی تھیں اور یہ ظہر کی نماز تھی۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی، اس لیے ممکن ہے کہ دودفعہ یہ واقعہ ہوا ہو۔ ٹھیک بات سوچنے کا مطلب یہ کہ مثلاً تین یاچار میں شک ہو تو تین کو اختیار کرے اور دواورتین میں شک ہو تو دو کو اختیار کرے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ پیغمبروں سے بھی بھول چوک ممکن ہے اوریہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں اگراس گمان پر کہ نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کرلے تونماز کانئے سرے سے لوٹانا واجب نہیں ہے، کیونکہ آپ نے خود نئے سرے سے نماز کو لوٹایا نہ لوگوں کو حکم دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) prayed (and the subnarrator Ibrahim said, "I do not know whether he prayed more or less than usual"), and when he had finished the prayers he was asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Has there been any change in the prayers?" He said, "what is it?' The people said, "You have prayed so much and so much." So the Prophet (ﷺ) bent his legs, faced the Qibla and performed two prostrations (of Sahu) and finished his prayers with Tasiim (by turning his face to right and left saying: 'As-Salamu'Alaikum-Warahmat-ullah'). When he turned his face to us he said, "If there had been anything changed in the prayer, surely I would have informed you but I am a human being like you and liable to forget like you. So if I forget remind me and if anyone of you is doubtful about his prayer, he should follow what he thinks to be correct and complete his prayer accordingly and finish it and do two prostrations (of Sahu)."