تشریح:
1۔ وحشی نے حضرت حمزہ ؓ کو ایسی بے دردی سے قتل کیا کہ ان کا سینہ چاک کرکے اندر سے دل نکالا اور آپ کی لاش کو بگاڑدیا۔
2۔ یہ ایک قدرتی بات تھی کہ وحشی کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کو حضرت حمزہ ؓ کی المناک شہادت یاد آجاتی، اس لیے آپ نے اسے اپنے سے دوررہنے کی تلقین فرمائی، بلکہ آپ نے اسے فرمایا:’’اے وحشی!جاؤ اللہ کے راستے میں جہاد کرو جس طرح تم پہلے اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے تھے۔‘‘ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک آپ کے سامنے نہیں آئے۔
3۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اُحد کے موقع پر ر سول اللہ ﷺ حضرت حمزہ ؓ کی لاش تلاش کرنے کے لیے نکلے تو انھیں ایک نشیبی علاقے میں پایا۔ ان کی شکل کو بگاڑدیا گیا تھا۔ انھیں دیکھ کر آپ کو بہت غم ہوا۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ بنت عبدالمطلب اپنے بھائی کی لاش دیکھ کر کس قدر صدمے سے نڈھال ہوگی، نیز میرے بعد لوگ شہید کی لاش کے ساتھ ایسا ہی کرنا سنت سمجھ لیں گے تو میں انھیں اس حالت میں چھوردیتا، اسے درندے اور پرندے کھاجاتے پھر قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے برآمد ہوکر میدان حشر میں حاضر ہوتے۔‘‘ (مسند أبي یعلیٰ (حسین سلیم) حدیث 3568 و فتح الباري:464/7)
4۔ اگرچہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں، تاہم وحشی کے دل میں اللہ کا ڈر تھا انھوں نے سوچا کہ جس طرح میں نے زمانہ کفر میں ایک بڑے جلیل القدر آدمی کو شہید کیا، اسی طرح زمانہ اسلام میں کسی خبیث اور بدترین انسان کو مار کر اس کا بدلہ چکاؤں، چنانچہ انھوں نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دورخلافت میں مسیلمہ کذاب کو قتل کیا جس کی تفصیل کتاب الفتن میں آئے گی۔
5۔ اس حدیث سے حضرت وحشی ؓ کی ذکاوت اور قیافہ شناسی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ایک روایت میں تفصیل ہے کہ وحشی نے عبیداللہ سے کہا:جب سے میں نے تجھے تیری رضاعی والدہ کے حوالے کیا، جس نے تجھے دودھ پلایا تھا، اس وقت سے آج تک نہیں دیکھا اور وہ بھی میں نے اس حالت میں اسے دیا تھا کہ وہ ذی طویٰ مقام میں اپنے اونٹ پر سوارتھی تو میں نے تجھے اٹھا کر اس کے حوالے کردیا تھا۔ اٹھاتے وقت مجھے تیراپاؤں نظر آیا تھا۔ اب تو میرے پاس آکر کھڑا ہوا ہے تو میں نے اس پاؤں کو پہچان لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت وحشی ؓ نے عبیداللہ کے قدموں کو اس بچے کے قدموں سے تشبیہ دی جسے پچاس سال پہلے اٹھایا تھا۔ (فتح الباري:461/7)