تشریح:
اس حدیث میں عامر بن طفیل کی موت کا ذ کر ہے۔ حالانکہ اس کی موت کا سریہ قراء سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر عامر کی غداری کی وجہ سے قراء حضرات کی شہادت واقع ہوئی تھی، اس لیے اس کی موت کا ذکر بھی آگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی غداری اور اپنے چچا ابوبراء کی امان کا لحاظ نہ کرنے پر اس کے خلاف بددعا فرمائی۔ بددعا کے الفاظ یہ ہیں: اے اللہ!عامر کے شرسے مجھے کفایت فرما۔ اس پر بددعا کا اثر اس طرح ظاہر ہوا کہ طاعون کی گلٹی اس کے کان کے پیچھے نکل آئی جبکہ یہ ایک عورت کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ چونکہ بہادر آدمی بستر پر موت پسند نہیں کرتا، اس لیے وہ فوراً گھوڑے پر سوار ہوا اور وہیں اسے موت نے آلیا۔ بہرحال اس کی موت کا واقعہ جملہ معترضہ کے طور پر ہے۔ سریہ قراء سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بئر معونہ کے حادثے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور مذکورہ گفتگو کی۔ واللہ اعلم۔