تشریح:
1۔ حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا جب ہم خندق کھودرہے تھے تو اچانک ایک چٹان نمودار ہوئی جس پر کدال کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی تو آپ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی، اور بسم اللہ پڑھ کر اسے چٹان پر مارا تو اس کا تیسرا حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ’’مجھے ملک شام کی چابیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت اس کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر آپ نے دوسری ضرب لگائی تو اس کا دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: ’’مجھے ایران کی کنجیاں سونپ دی گئی ہیں اللہ کی قسم! میں اب اس ملک کے سفید محلات کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر اللہ کا نام لے کر تیسری ضرب لگائی تو پوری چٹان ٹوٹ گئی۔ آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا:’’مجھے ملک یمن کی چابیاں دی گئی ہیں۔ اللہ قسم! میں اس مقام پر کھڑا صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ (مسند احمد:303/4)
2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دس، دس صحابہ کرام پر مشتمل گروپ تشکیل دیے اور ایک گروپ کو دس ہاتھ خندق کھودنے کی ذمہ داری سونپی گئی خندق کھودتے کھودتے ایک سخت چٹان آئی جس نے کدال توڑدیے۔ صحابہ کرام ؓ نے حضرت سلمان ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تاکہ اس صورت حال سے نمٹا جا سکے، چنانچہ آپ نے کدال لے کر ضرب لگائی تو چٹان میں دراڑیں پڑ گئیں اور اس سے چمک پیدا ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ نے نعرہ تکبیربلند کیا اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ نے بھی اللہ اکبر کہا، آپ نے فرمایا: ’’میں نے اس چمک میں شام کے محلات کو دیکھا۔ میرے پاس جبرئیل آئے اور انھوں نے کہا: ایک دن آپ کی امت ان محلات پر قابض ہو جائے گی۔‘‘ چنانچہ مسلمان اس بشارت سے بہت خوش ہوئے۔ (فتح الباري:496/7)