تشریح:
1۔ غزوہ خندق کے موقع پر کھانا زیادہ ہونے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی ام سلیم ؓ سے کہا، آج میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز کو کمزور پا یا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے۔ کیا تمھارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ انھوں نے کہا: ’’ہاں‘‘ چنانچہ انھوں نے جوکی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹا لیا اور اس کے ایک حصے میں انھیں لپیٹ دیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ حضرت انس ؓ کہنے ہیں کہ میں وہ روٹیاں لے کر جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: کیا تمھیں ابوطلحہ ؓ نے کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں! رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: ’’اٹھو اور ابو طلحہ ؓ کے پاس چلو۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ ﷺ حضرت طلحہ ؓ کے پاس آئے اور حضرت ام سلیم ؓ سے فرمایا: ’’ام سلیم ؓ ! جو کچھ تمھارے پاس ہے اسے لے آؤ۔‘‘ حضرت ام سلیم ؓ روٹیاں لے کر آئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ان کے ٹکڑے بنا دیے جائیں۔‘‘ حضرت ام سلیم ؓ نے ان پر گھی نچوڑ دیا۔ پھر آپ نے اس کھانے پر کچھ پڑھا اور فرمایا: ’’دس آدمیوں کو بلاؤ۔‘‘ چنانچہ وہ کھا کر باہر چلے گئے تو مزید دس آدمیوں کو بلایا۔ اس طرح سب آدمیوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا جبکہ وہ اسی (80) کے قریب تھے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3578) ایک روایت میں ہے کہ آخرمیں رسول اللہ ﷺ اور اہل خانہ نے کھانا کھایا۔ اس کے بعد جو کھانا بچ گیا تھا اسے ہمسایوں میں تقسیم کردیا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5321۔(2040)) ایک روایت کے مطابق جو کھانا بچ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے اسے جمع کیا اور اس پر برکت کی دعا فرمائی تو وہ اتنا ہی ہوگیا جس قدر پہلے تھا (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5321۔(2040))
2۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ حضرت جابر ؓ کے گھر تشریف لائے واپس جانے لگے تو حضرت جابر ؓ کے منع کرنے کے باوجود ان کی بیوی نے آپ سے گزارش کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! میرے لیے اور میرے خاوند کے لیے دعا فرما دیں۔ آپ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اور کے خاوند پر خیرو برکت نازل فرمائے۔ حضرت جابر ؓ نے اظہار ناراضی فرمایا تو بیوی نے کہا: یہ کیونکر ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائیں اور ہم آپ کی دعاؤں سے محروم رہیں۔ (مسند أحمد:398/3)