تشریح:
1۔ صفین عراق اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جہاں حضرت امیر معاویہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔
2۔ حضرت سہل بن حنیف ؓ نے اس جنگ میں حصہ نہ لیا تو لوگوں نے اس اقدام کو کوتاہی پر محمول کیا۔ اس وقت انھوں نے فرمایا: تم اپنی رائے پر فخر نہ کرو۔ تم لوگ اپنی عقل کی بنیاد پر اپنے مسلمان بھائیوں سے جنگ کرتے ہو۔ ہماری حالت بھی صلح حدیبیہ کے وقت ایسی تھی جیسے تمھاری اس وقت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس وقت جنگ کرنے سے باز رکھا اور اسی میں خیرو برکت تھی۔ تم نے جنگ میں حصہ لے کر غلطی کی ہے۔ مسند احمد میں اس کے متعلق کچھ تفصیل ہے کہ جب جنگ صفین میں اہل شام قتل ہونے لگے تو انھوں نے ایک ریت کے ٹیلے کے پیچھے پناہ پکڑی۔ حضرت عمر بن عاص ؓ کی تجویز پر کتاب اللہ کو حکم بنانے کا اعلان کیا گیا تو خوارج نے کہا کہ ہم ریت کے ٹیلے کے پیچھے جا کر ان کا صفایا کر دیتے ہیں۔ اس موقع پر حضرت سہل بن حنیف ؓ نے فرمایا لوگو! ذرا اپنی رائے پر نظر ثانی کرو۔ مصلحت یہ ہے کہ ایک دوسرے کا گلا کاٹنےکے بجائےصلح کرلی جائے۔ (مسند أحمد:488/3)
3۔ امام بخاری ؒ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ میں حضرت سہل بن حنیف ؓ شریک تھے اور انھوں نے بیعت رضوان کی تھی۔ واللہ اعلم۔