Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: (What is said regarding the superiority of) a person who embraces Islam sincerely)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
42.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنے اسلام کو اچھا کرے تو وہ ہر اچھائی جس کو وہ بجا لائے گا، دس گنا سے سات سو گنا تک لکھی جائے گی اور ہر وہ برا کام جو وہ کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے (جتنا اس نے کیا ہے)۔‘‘
تشریح:
1۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسن اسلام کی ایک صفت ہے اور حسن میں مراتب قائم ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام میں بھی مراتب قائم ہوں گے اس بنا پر اس میں کمی بیشی بھی ہوگی، نیز اس سے ان لوگوں کی تردید بھی مقصود ہے جو ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت کا یکسر انکار کرتے ہیں کیونکہ اسلام کا حسن، اعمال کا مرہون منت ہے۔ جب ان کا اختیارکرنا وجہ حسن ہے تو ان کا ترک باعث نقصان ہوگا۔ پھر اس باب کی ماقبل سے مناسبت یہ ہے کہ پہلے باب میں"الصلاة من الإیمان" فرمایا اور اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں حسن بھی نماز سے آتا ہے۔( عمدۃ القاری :369/1) 2۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کافر اگر سچے دل سے مسلمان ہو جائے تو ایام کفر کی نیکیاں بھی اس کے بطاقہ اعمال میں لکھ دی جائیں گی۔ (سنن النسائي، الإیمان، حدیث: 5001۔والصحیحة للألباني، حدیث: 247) اس سے معلوم ہوا کہ کافر اگر مسلمان ہو جائے تو زمانہ کفر کی نیکیوں کا بھی اسے ثواب ملے گا۔ اس کی تائید حضرت حکیم بن حزام کی روایت سے بھی ہوتی ہےانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ مجھے ایام جاہلیت کے اچھے کاموں کا کچھ فائدہ ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے سابقہ اعمال خیر کو ساتھ لیے ہوئے مسلمان ہوئے ہو۔ یعنی اسلام کی برکت سے تمھارے جملہ اعمال خیر قائم ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1436) 3۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جو طاعات زمانہ کفر میں کی گئی ہیں ان کی دو اقسام ہیں: (1) جن کے لیے نیت شرط ہے اور نیت کی شرط اسلام ہے، اس لیے کافر کا کوئی عمل عبادت نہیں بن سکتا۔ (2) قربات: عبادت کے علاوہ دیگر امور خیر قربات میں شامل ہیں۔ یہ دنیا میں اس کی نیک نامی کا باعث ہو سکتے ہیں اور آخرت میں تخفیف عذاب کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ عذاب سے نجات کے لیے تو ایمان شرط ہے جیسا کہ ابو طالب کے متعلق احادیث میں آیا ہے۔ بہر حال کافر کی طاعات وقربات عذاب میں تخفیف پیدا کردیتی ہیں جبکہ وہ کفر پر مرا ہو، اگر اسلام پر خاتمہ ہوتو اللہ تعالیٰ اسلام کی برکت سے بطور احسان ان اعمال خیر پر بھی ثواب عطا فرمائے گا۔ جو بحالت کفر کیے ہوں گے۔( فتح الباري: 134/1) 4۔ اصول قصاص کا مطلب یہ ہے کہ اگر نیکی کا عمل ہے تو اس پر ثواب کم از کم دس گنا کردیا جائے گا اور یہ آخری حد نہیں بلکہ بقدر اخلاص درجات بڑھتے رہیں گے حتیٰ کہ یہ اضافہ سات سو تک پہنچ جاتا ہے بلکہ معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو تک بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ عطا فرماتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:338(131)) اس میں شرط یہ ہے کہ نمائش مقصود نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ حسنات کی جائیں اور جہاں تک سيئات (برائیوں) کا تعلق ہے تو انھیں بڑھا کر نہیں لکھا جاتا بلکہ جس درجے کی سیئہ (برائی) ہوگی، اسی قدر اس کی جزا لکھی جاتی ہے۔ 5۔ اسلام کے بہترہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوامر و نواہی کو ہر وقت سامنے رکھا جائے حلال وحرام میں پورے طور پر تمیز کی جائے اللہ کا خوف رکھا جائے۔ جنت کی طلب کی جائےجہنم سے پناہ مانگی جائے اپنے اعتقاد وعمل اور اخلاق و کردار سے اسلام کا سچا نمونہ پیش کیا جائے۔ اس حالت میں جو نیکی کی جائے گی اس کا ثواب سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک دیا جائےگا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
42
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
42
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
42
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
42
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اپنے اسلام کو اچھا کرے تو وہ ہر اچھائی جس کو وہ بجا لائے گا، دس گنا سے سات سو گنا تک لکھی جائے گی اور ہر وہ برا کام جو وہ کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے (جتنا اس نے کیا ہے)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسن اسلام کی ایک صفت ہے اور حسن میں مراتب قائم ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام میں بھی مراتب قائم ہوں گے اس بنا پر اس میں کمی بیشی بھی ہوگی، نیز اس سے ان لوگوں کی تردید بھی مقصود ہے جو ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت کا یکسر انکار کرتے ہیں کیونکہ اسلام کا حسن، اعمال کا مرہون منت ہے۔ جب ان کا اختیارکرنا وجہ حسن ہے تو ان کا ترک باعث نقصان ہوگا۔ پھر اس باب کی ماقبل سے مناسبت یہ ہے کہ پہلے باب میں"الصلاة من الإیمان" فرمایا اور اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں حسن بھی نماز سے آتا ہے۔( عمدۃ القاری :369/1) 2۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کافر اگر سچے دل سے مسلمان ہو جائے تو ایام کفر کی نیکیاں بھی اس کے بطاقہ اعمال میں لکھ دی جائیں گی۔ (سنن النسائي، الإیمان، حدیث: 5001۔والصحیحة للألباني، حدیث: 247) اس سے معلوم ہوا کہ کافر اگر مسلمان ہو جائے تو زمانہ کفر کی نیکیوں کا بھی اسے ثواب ملے گا۔ اس کی تائید حضرت حکیم بن حزام کی روایت سے بھی ہوتی ہےانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ مجھے ایام جاہلیت کے اچھے کاموں کا کچھ فائدہ ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے سابقہ اعمال خیر کو ساتھ لیے ہوئے مسلمان ہوئے ہو۔ یعنی اسلام کی برکت سے تمھارے جملہ اعمال خیر قائم ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1436) 3۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جو طاعات زمانہ کفر میں کی گئی ہیں ان کی دو اقسام ہیں: (1) جن کے لیے نیت شرط ہے اور نیت کی شرط اسلام ہے، اس لیے کافر کا کوئی عمل عبادت نہیں بن سکتا۔ (2) قربات: عبادت کے علاوہ دیگر امور خیر قربات میں شامل ہیں۔ یہ دنیا میں اس کی نیک نامی کا باعث ہو سکتے ہیں اور آخرت میں تخفیف عذاب کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ عذاب سے نجات کے لیے تو ایمان شرط ہے جیسا کہ ابو طالب کے متعلق احادیث میں آیا ہے۔ بہر حال کافر کی طاعات وقربات عذاب میں تخفیف پیدا کردیتی ہیں جبکہ وہ کفر پر مرا ہو، اگر اسلام پر خاتمہ ہوتو اللہ تعالیٰ اسلام کی برکت سے بطور احسان ان اعمال خیر پر بھی ثواب عطا فرمائے گا۔ جو بحالت کفر کیے ہوں گے۔( فتح الباري: 134/1) 4۔ اصول قصاص کا مطلب یہ ہے کہ اگر نیکی کا عمل ہے تو اس پر ثواب کم از کم دس گنا کردیا جائے گا اور یہ آخری حد نہیں بلکہ بقدر اخلاص درجات بڑھتے رہیں گے حتیٰ کہ یہ اضافہ سات سو تک پہنچ جاتا ہے بلکہ معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو تک بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ عطا فرماتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:338(131)) اس میں شرط یہ ہے کہ نمائش مقصود نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ حسنات کی جائیں اور جہاں تک سيئات (برائیوں) کا تعلق ہے تو انھیں بڑھا کر نہیں لکھا جاتا بلکہ جس درجے کی سیئہ (برائی) ہوگی، اسی قدر اس کی جزا لکھی جاتی ہے۔ 5۔ اسلام کے بہترہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوامر و نواہی کو ہر وقت سامنے رکھا جائے حلال وحرام میں پورے طور پر تمیز کی جائے اللہ کا خوف رکھا جائے۔ جنت کی طلب کی جائےجہنم سے پناہ مانگی جائے اپنے اعتقاد وعمل اور اخلاق و کردار سے اسلام کا سچا نمونہ پیش کیا جائے۔ اس حالت میں جو نیکی کی جائے گی اس کا ثواب سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک دیا جائےگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے، انھیں معمر نے ہمام سے خبر دی، وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے (یعنی نفاق اور ریا سے پاک کر لے) تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے۔ (جتنا کہ اس نے کیا ہے)‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت امام المحدثین نے اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر یہاں بھی اسلام وایمان کے ایک ہونے اور ان میں کمی وبیشی کے صحیح ہونے کے عقیدہ کا اثبات فرمایا ہے اور بطور دلیل ان احادیث پاک کو نقل فرمایا ہے جن سے صاف ظاہر ہے کہ ایک نیکی کا ثواب جب سات سوگنا تک لکھا جاتا ہے تو یقیناً اس سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اور کتاب وسنت کی رو سے یہی عقیدہ درست ہے جو لوگ ایمان کی کمی وبیشی کے قائل نہیں ہیں اگروہ بنظر عمیق کتاب وسنت کا مطالعہ کریں گے توضرور ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا۔ اسلام کے بہتر ہونے کا مطلب یہ کہ اوامر ونواہی کو ہر وقت سامنے رکھاجائے۔ حلال حرام میں پورے طور پر تمیز کی جائے، خدا کا خوف، آخرت کی طلب، دوزخ سے پناہ ہر وقت مانگی جائے اور اپنے اعتقاد وعمل واخلاق سے اسلام کا سچا نمونہ پیش کیاجائے اس حالت میں یقیناً جو بھی نیکی ہوگی اس کا ثواب سات سو گنے تک زیادہ کیا جائے گا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ سعادتِ عظمیٰ نصیب فرمائے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If any one of you improve (follows strictly) his Islamic religion then his good deeds will be rewarded ten times to seven hundred times for each good deed and a bad deed will be recorded as it is."