تشریح:
1۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسن اسلام کی ایک صفت ہے اور حسن میں مراتب قائم ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام میں بھی مراتب قائم ہوں گے اس بنا پر اس میں کمی بیشی بھی ہوگی، نیز اس سے ان لوگوں کی تردید بھی مقصود ہے جو ایمان کے لیے اعمال کی ضرورت کا یکسر انکار کرتے ہیں کیونکہ اسلام کا حسن، اعمال کا مرہون منت ہے۔ جب ان کا اختیارکرنا وجہ حسن ہے تو ان کا ترک باعث نقصان ہوگا۔ پھر اس باب کی ماقبل سے مناسبت یہ ہے کہ پہلے باب میں"الصلاة من الإیمان" فرمایا اور اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام میں حسن بھی نماز سے آتا ہے۔( عمدۃ القاری :369/1)
2۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کافر اگر سچے دل سے مسلمان ہو جائے تو ایام کفر کی نیکیاں بھی اس کے بطاقہ اعمال میں لکھ دی جائیں گی۔ (سنن النسائي، الإیمان، حدیث: 5001۔والصحیحة للألباني، حدیث: 247) اس سے معلوم ہوا کہ کافر اگر مسلمان ہو جائے تو زمانہ کفر کی نیکیوں کا بھی اسے ثواب ملے گا۔ اس کی تائید حضرت حکیم بن حزام کی روایت سے بھی ہوتی ہےانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ مجھے ایام جاہلیت کے اچھے کاموں کا کچھ فائدہ ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے سابقہ اعمال خیر کو ساتھ لیے ہوئے مسلمان ہوئے ہو۔ یعنی اسلام کی برکت سے تمھارے جملہ اعمال خیر قائم ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1436)
3۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جو طاعات زمانہ کفر میں کی گئی ہیں ان کی دو اقسام ہیں:
(1) جن کے لیے نیت شرط ہے اور نیت کی شرط اسلام ہے، اس لیے کافر کا کوئی عمل عبادت نہیں بن سکتا۔
(2) قربات: عبادت کے علاوہ دیگر امور خیر قربات میں شامل ہیں۔
یہ دنیا میں اس کی نیک نامی کا باعث ہو سکتے ہیں اور آخرت میں تخفیف عذاب کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ عذاب سے نجات کے لیے تو ایمان شرط ہے جیسا کہ ابو طالب کے متعلق احادیث میں آیا ہے۔ بہر حال کافر کی طاعات وقربات عذاب میں تخفیف پیدا کردیتی ہیں جبکہ وہ کفر پر مرا ہو، اگر اسلام پر خاتمہ ہوتو اللہ تعالیٰ اسلام کی برکت سے بطور احسان ان اعمال خیر پر بھی ثواب عطا فرمائے گا۔ جو بحالت کفر کیے ہوں گے۔( فتح الباري: 134/1)
4۔ اصول قصاص کا مطلب یہ ہے کہ اگر نیکی کا عمل ہے تو اس پر ثواب کم از کم دس گنا کردیا جائے گا اور یہ آخری حد نہیں بلکہ بقدر اخلاص درجات بڑھتے رہیں گے حتیٰ کہ یہ اضافہ سات سو تک پہنچ جاتا ہے بلکہ معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات سو تک بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ عطا فرماتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:338(131)) اس میں شرط یہ ہے کہ نمائش مقصود نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ حسنات کی جائیں اور جہاں تک سيئات (برائیوں) کا تعلق ہے تو انھیں بڑھا کر نہیں لکھا جاتا بلکہ جس درجے کی سیئہ (برائی) ہوگی، اسی قدر اس کی جزا لکھی جاتی ہے۔
5۔ اسلام کے بہترہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اوامر و نواہی کو ہر وقت سامنے رکھا جائے حلال وحرام میں پورے طور پر تمیز کی جائے اللہ کا خوف رکھا جائے۔ جنت کی طلب کی جائےجہنم سے پناہ مانگی جائے اپنے اعتقاد وعمل اور اخلاق و کردار سے اسلام کا سچا نمونہ پیش کیا جائے۔ اس حالت میں جو نیکی کی جائے گی اس کا ثواب سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک دیا جائےگا۔