تشریح:
1۔ اس عنوان کے دو جز ہیں۔ © مہمان اپنے اختیار سے جہاں چاہے نماز پڑھ لے۔ © جس جگہ اہل خانہ کہیں وہیں نماز ادا کرے۔ ان دونوں اجزاء کے درمیان کلمہ (اَؤ) ہےجو دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ © تخبیر مہمان کو ان دونوں میں سے کسی بھی ایک صورت کا اختیار ہے، چاہے تو گھر میں داخل ہونے کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاں چاہے نماز پڑھ لے اور چاہے تو اہل خانہ کی نشان دہی کے مطابق عمل کرے۔ یعنی اسے ان دونوں باتوں میں سے کسی بھی صورت پر عمل کرنے کی آزادی ہے۔ © تعیین احد الامرین کلمہ اَو دونوں صورتوں میں سے ایک کی تعیین کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مہمان کو ان دونوں صورتوں میں سے کس صورت کو اختیار کرنا ہے۔ یہ معنی لینے میں اس پہلے (هَل) مقدور ہوگا۔ 2۔ اس مختصر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ میزبان کی خواہش کا احترام کیا جائے، خود اپنی مرضی سے کوئی اقدام نہ کیا جائے، کیونکہ اس روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہو تاکہ میں وہاں نماز پڑھوں، لیکن تفصیلی روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ میزبان کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کا حق ہے، کیونکہ حضرت عتبان بن مالک ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا تھا کہ آپ میرے گھر تشریف لا کر کسی بھی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اس متبرک مقام کو خانگی مسجد بنا لوں۔ لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں جو: (لَايَتَجَسَّسُ) کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ وہ تجسس نہ کرے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل خانہ کی مرضی کا پابند ہے، کیونکہ جہاں چاہے نماز پڑھنے میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی جگہ پڑھنا چاہے جہاں گھر والوں کو پسند نہ ہو یا اہل خانہ کے ستر و حجاب کے منافی ہو یا ایسی جگہ پڑھنا چاہے جہاں ان کا ایسا گھریلوسامان پڑا ہو جسے وہ کسی پر ظاہر نہ کرنا چاہتے ہوں وغیرہ۔ ہاں!اگر گھر والا ہی عام اجازت دے دے کہ جہاں چاہے نماز پڑھ لے تو پھر اپنے اختیارات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ تو عام بات کے متعلق تفصیل ہے، لیکن اگر کوئی کسی بزرگ کو اسی مقصد کے لیے بلاتا ہے تو بزرگ کو چاہیے کہ وہ اہل خانہ سے جگہ دریافت کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عتبان ؓ سے دریافت فرمایا تھا۔ الغرض امام بخاری ؒ کا مقصد ان دونوں صورتوں میں سے ایک کی تعیین معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ دونوں صورتوں میں سے کسی بھی صورت پر عمل کرنے کی آزادی بھی ہو سکتا ہے، تاہم اس کے لیے روایت کے دیگر طرق میں ذکر کردہ تفصیلات کا سہارا لینا پڑے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر ؒ کے حوالے سے اس دوسری صورت کو ترجیح دی ہے۔ (فتح الباري:671/1) لیکن دل اس پر مطمئن نہیں۔ واللہ أعلم۔