تشریح:
1۔حضرت خالد بن ولید ؓ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوگئے تھے اور جب انھوں نے حضر ت عبداللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت کے بعد اسلامی جھنڈا پکڑا تو اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کاحکم دیا، وہ پیچھے ہٹ کر پھر آگے بڑھے۔ رومیوں نے سمجھا کہ انھیں تازہ کمک(مدد) پہنچ گئی ہے، اس لیے وہ آگے بڑھے ہیں۔ اس موقع پر گھمسان کی جنگ ہوئی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق یوں دعا فرمائی:’’اے اللہ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما۔‘‘ (السنن الکبری للنسائی:69/5۔) اس وقت سے حضرت خالد بن ولید ؓ کو سیف اللہ(اللہ کی تلوار) کہا جاتا ہے۔ 2۔اس حدیث سے معلوم ہواکہ کسی کو مشروط سپہ سالار یا امیر بنانا جائزہے اور یہ بھی واضح ہواکہ بوقت ضرورت حاکم اعلیٰ کی اجازت کے بغیر امیر بنانا بھی جائز ہے۔ اس حدیث میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی واضح فضیلت ہے۔ (فتح الباري:642/7۔)