قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابٌ:)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4302. حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ قَالَ قَالَ لِي أَبُو قِلَابَةَ أَلَا تَلْقَاهُ فَتَسْأَلَهُ قَالَ فَلَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ كُنَّا بِمَاءٍ مَمَرَّ النَّاسِ وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا الرُّكْبَانُ فَنَسْأَلُهُمْ مَا لِلنَّاسِ مَا لِلنَّاسِ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُونَ يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ أَوْحَى إِلَيْهِ أَوْ أَوْحَى اللَّهُ بِكَذَا فَكُنْتُ أَحْفَظُ ذَلِكَ الْكَلَامَ وَكَأَنَّمَا يُقَرُّ فِي صَدْرِي وَكَانَتْ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلَامِهِمْ الْفَتْحَ فَيَقُولُونَ اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَيْهِمْ فَهُوَ نَبِيٌّ صَادِقٌ فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلَامِهِمْ وَبَدَرَ أَبِي قَوْمِي بِإِسْلَامِهِمْ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ جِئْتُكُمْ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا فَقَالَ صَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا وَصَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنْ الرُّكْبَانِ فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّي فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْحَيِّ أَلَا تُغَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ فَاشْتَزَوْا فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْءٍ فَرَحِي بِذَلِكَ الْقَمِيصِ

مترجم:

4302.

ایوب نے کہا: مجھ سے ابو قلابہ نے کہا: عمرو بن سلمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ کیوں نہیں پوچھتے؟ ابو قلابہ نے کہا: پھر میں ان کی خدمت میں گیا اور ان سے سوال کیا، انہوں نے فرمایا: ہم ایک چشمے پر رہائش پذیر تھے جو لوگوں کے لیے عام گزرگاہ تھا۔ ہماری طرف سے جو مسافر سوار گزرتے ہم ان سے پوچھتے رہتے کہ آپ لوگوں کا کیا حال ہے؟ اور اس شخص کی کیا کیفیت ہے؟ لوگ جواب دیتے: وہ کہتا ہے کہ اللہ نے اسے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ اس کی طرف وحی اتارتا ہے یا یوں کہا کہ اللہ نے اس پریہ یہ وحی بھیجی ہے۔ (پھر وہ لوگ قرآن کی کوئی آیت سناتے تو) میں وہ کلام خوب یاد کر لیا کرتا گویا کوئی اسے میرے سینے میں ج دیتا ہے۔ اور اہل عرب مسلمان ہونے کے لیے فتح مکہ کے منتظر تھے اور کہتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ کو اور اس کی قوم کو چھوڑ دو۔ اگر حضرت محمد ﷺ ان پر غالب آ گئے تو وہ نبی برحق ہیں۔ پھر جب مکہ فتح ہوا تو ہر ایک قوم نے چاہا کہ وہ پہلے مسلمان ہو جائے اور میرے باپ نے مسلمان ہونے میں اپنی قوم سے بھی جلدی کی۔ جب میرا باپ (مسلمان ہو کر) آیا تو اس نے اپنی قوم سے کہا: اللہ کی قسم! میں نبی حق سے ملاقات کر کے تمہارے پاس آ رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے: ’’فلااں وقت یہ نماز پڑھا کرو اور فلاں وقت وہ نماز پڑھا کرو۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان دے اور جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ جماعت کرائے۔‘‘ لوگوں نے اس پر غور کیا تو مجھ سے زیادہ قرآن پڑھنے والا کسی کو نہ پایا کیونکہ میں مسافر سواروں سے سن سن کر بہت یاد کر چکا تھا، لہذا سب نے مجھے امام منتخب کر لیا، حالانکہ میں اس وقت چھ سات برس کا تھا۔ ایسا ہوا کہ اس وقت میرے تن پر صرف ایک چادر تھی، وہ بھی جب میں سجدہ کرتا تو سکڑ جاتی۔ قبیلے کی ایک عورت نے یہ منظر دیکھ کر کہا: تم اپنے قاری کا سرین ہم سے کیوں نہیں چھپاتے؟ آخرکار انہوں نے ایک کپڑا خرید کر میرا کرتا بنایا اور میں جتنا اس کرتے سے خوش ہوا اتنا کسی چیز سے کبھی خوش نہیں ہوا۔