تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے ہوازن سے حاصل شدہ مال غنیمت جعرانہ میں رکھا اور خود طائف کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن اہل قلعہ نے وہاں اتنا سامان جمع کر رکھا تھا جو انھیں ایک سال کے لیے کافی تھا انھوں نے مسلمانوں پر تیروں کے ساتھ گرم سلاحیں باندھ کر پھینکیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن شیبہ کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے۔ کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اہل طائف کا محاصرہ کیا تو صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ثقیف کے تیروں نےہمیں جلا دیا ہے، آپ ان پر بددعا فرمائیں تو آپ ﷺ نے دعا کی: "اے اللہ !ثقیف کو ہدایت دے۔" (المصنف لابن أبي شیبة:108/11) پھر آپ نے نوفل بن معاویہ ؓ سے مشورہ کیا تو انھوں نے عرض کی کہ یہ لوگ لومڑی کی طرح اپنے بل میں گھس گئے ہیں اگر آپ یہاں ٹھہریں گے تو ان پر قابو پانا ممکن ہے اور چھوڑنے کی صورت میں وہ آپ کا نقصان نہیں کر سکیں گے۔ ان کے مشورے کے بعد آپ نے وہاں سے کوچ کا پروگرام بنایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے جذبات کا اظہار کیا جیسا کہ حدیث میں ہے لڑائی شروع ہوئی تو مسلمان نیچے سے تیر پھینکتے تو نشانہ خطا جاتا اور دشمن اوپر سے تیر پھینکتے تو نشانہ خطانہ جاتا اب مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ ان کا واپس جانا ہی بہتر ہےاس لیے جب دوسرے روز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کل ہم واپس جائیں گے تو وہ خوش ہو گئے کیونکہ اوپر سے آنے والے تیروں سے بچنا بہت مشکل تھا۔'' (فتح الباري:56/8)