تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے جب طائف کا محاصرہ کیا تو قلعے کے اندر ہی چند آدمیوں نے مشورہ کیا کہ ہم کیوں نہ مسلمان ہوجائیں، لیکن قلعے سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نہ بنتی تھی۔ وہ دیوار پر چڑھے اور بکرہ، یعنی سیڑھی کے ذریعے قلعے سے باہرنکلے۔ یہ تحریک جس شخص نے برپا کی تھی وہ ابوبکرہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا اصل نام نفیع بن حارث ہے اور وہ ثقیف کے غلاموں میں سے ہیں۔
2۔ پہلی روایت میں قلعے سے نکلنے والوں کی تعداد مبہم تھی، دوسری روایت میں وضاحت کردی گئی کہ ان کی تعداد تئیس (23) تھی۔ سب سے پہلے ابوبکرہ ؓ نیچے اترے، شارحین نے قلعے سے اترنے والوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ ان میں زیاد کی والدہ حضرت سمیہ ؓ کے شوہر ازرق بھی تھے۔ یہی وہی زیاد ہے جو بعد میں زیاد بن ابوسفیان کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ حضرت ابوبکرہ ؓ کا مادری بھائی تھا۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جب زیاد نے خود کو ابوسفیان ؓ کی طرف منسوب کیا تو ابوعثمان نہدی نے حضرت ابوبکرہ ؓ سے کہا:آپ نے یہ کیا کیا ہے؟ پھر انھوں نے مذکورہ حدیث کا حوالہ دیا۔ ابوبکرہ ؓ نے کہا:میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 219(63))
3۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ حضرت ابوبکرہ ؓ ان اصحاب میں سے ہیں جو طائف کا قلعہ پھلانک کررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان غلاموں کو آزاد کردیا جو قلعے سے اترکر آپ کے پاس حاضر ہوئے تھے۔ (فتح الباري:58/8)