1۔ جعرانہ ایک منزل کا نام ہے۔ المستوفرہ سے آئیں تو حرم مکی کی حد یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ جگہ بیت اللہ تقریباً 23 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ مقام مکے اورمدینے کے درمیان نہیں جیسا کہ اس روایت میں ہےبلکہ مکے اورطائف کے درمیان ہے کیونکہ یہ طائف سے واپسی کا واقعہ ہے۔ شاید کسی راوی سے سہواً ایسا ہوا ہے کہ اسے مکے اورمدینے کے درمیان بیان کیا ہے۔
2۔ رسول اللہ ﷺ نے اس دیہاتی سےکوئی خاص وعدہ کیا ہوگا۔ ممکن ہےکہ عام وعدہ مراد ہو، وہ یہ کہ طائف سے جعرانہ واپس آکر اموال غنیمت تقسیم کریں گے لیکن وہ شخص اپنا حصہ لینے میں جلدی سے کام لے رہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے اعرابی!تجھے بشارت ہو،عنقریب اموال غنیمت تقسیم ہوں گے۔‘‘ یا تجھے صبر کرنے میں اللہ کے ہاں بہت ثواب ملے گا‘‘ اس کے بعد اعرابی کا رد عمل روایت میں موجود ہے۔ وہ بے ادب گنوار بدقسمتی سے رسول اللہ ﷺ کی بشارت پر خوش نہ ہوا۔ آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اورحضرت ابوموسیٰ ؓ اور حضرت بلال ؓ کو یہ نعمت عطا فرمائی، کسی نے سچ کہا ہے۔
تہی دستان ِ قسمت راچہ سود از رہبر کامل۔۔کہ خضر از آب حیوان تشنہ مے آرد سکندر را۔
3۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اموال غنیمت جعرانہ میں اکھٹے کررکھے تھے۔ آپ طائف چلے گئے۔ ایک خاص حکمت کے پیش نظر ان کی تقسیم میں دیرفرمائی، اس لیے نئے نئے مسلمانوں کو جلد بازی کی وجہ سے باتیں بنانے کا موقع ملا، چنانچہ آپ ﷺ نے طائف سے واپسی کے بعد انھیں تقسیم فرمایا۔ (فتح الباري:58/8)