تشریح:
1۔ غزوہ ذات سلاسل کے لیے نبی کریم ﷺ نے تین سو مہاجرین وانصار کا دستہ روانہ فرمایا۔ ان کے امیر حضرت عمرو بن عاص ؓ تھے، پھر ان کی امداد کے لیے حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ کی سرکردگی میں دوسومجاہدین مزید روانہ کیے۔ اس جنگ میں حضرت عمرو بن عاص ؓ نے مجاہدین کو آگ جلانے سے منع کردیا۔ حضرت عمر ؓ نے اس پر اعتراض کیا توحضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ انھیں اپنے حال پر چھوڑدوکیونکہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ہمارا امیر بنایا ہے کیونکہ وہ جنگی فنون میں ماہر ہے۔ پھر حضرت عمر ؓ خاموش ہوگئے۔ جب دشمن کو شکست ہوئی تومجاہدین نے ان کا پیچھا کرنا چاہا لیکن حضرت عمرو بن عاص ؓ نے اس سے بھی روک دیا۔ جب فتح یاب ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے ان باتوں کا ذکر کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرو بن عاص ؓ سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے عرض کی کہ میں نے انھیں آگ روشن کرنے سے اس لیے منع کیا تھاکہ دشمن کو ہماری فوج کی کمی کا علم نہ ہوسکے۔ اوردشمن کا پیچھا کرنے سے اس بنا پر روکاتھا کہ آگے دشمن کے مددگار موجود تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس امر پر عمروبن عاص ؓ کی تحسین فرمائی۔
2۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ کے دل میں خیال آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایسے لشکر کا امیر بنایا ہے جس میں حضرت ابوبکر ؓ اورحضرت عمر ؓ جیسے جلیل القدر صحابی موجود ہیں، لہذاآپ کے نزدیک میرا مقام بہت بلند ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا کہ آپ کوتمام لوگوں میں سے کون زیادہ پیارا ہے؟
3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مفضول کو فاضل پر امیربنانا جائز ہے جبکہ مفضول میں کوئی ایسا وصف ہو جس کے باعث وہ دوسروں سے ممتاز ہو۔ (فتح الباري:94/8)
4۔ اس جنگ میں حضرت عمرو بن عاص ؓ کو احتلام ہوگیا۔ چونکہ سخت سردی تھی، اس لیے انھوں نے تیمم کرکے نماز پڑھائی اور دلیل کے طورپریہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔‘‘ (النساء:29/4) جب رسول اللہ ﷺ کے پاس ان کا ذکر ہوا تو آپ نے انھیں کچھ نہ کہا۔ امام بخاری ؒ نے تعلیقاً اس واقعے کا تذکرہ کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التیمم، باب:7)