موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ، قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ)
حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
4361 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْجِعْرَانَةِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ أَلَا تُنْجِزُ لِي مَا وَعَدْتَنِي فَقَالَ لَهُ أَبْشِرْ فَقَالَ قَدْ أَكْثَرْتَ عَلَيَّ مِنْ أَبْشِرْ فَأَقْبَلَ عَلَى أَبِي مُوسَى وَبِلَالٍ كَهَيْئَةِ الْغَضْبَانِ فَقَالَ رَدَّ الْبُشْرَى فَاقْبَلَا أَنْتُمَا قَالَا قَبِلْنَا ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ ثُمَّ قَالَ اشْرَبَا مِنْهُ وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا وَأَبْشِرَا فَأَخَذَا الْقَدَحَ فَفَعَلَا فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّكُمَا فَأَفْضَلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً
صحیح بخاری:
کتاب: غزوات کے بیان میں
باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے
)مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
4361. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا جب آپ جعرانه میں ٹھہرے تھے، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے۔ آپ کے ساتھ حضرت بلال ؓ بھی تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا: آپ نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا کیا آپ اسے پورا نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرے لیے بشارت ہے۔‘‘ وہ بولا یہ کیا بات ہے؟ آپ اکثر یہی فرماتے رہتے ہیں: خوش ہو جاؤ۔ یہ سن کر آپ ﷺ حضرت ابو موسٰی اور حضرت بلال ؓ کی طرف غضبناک حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اس دیہاتی نے تو بشارت کو مسترد کر دیا ہے، لہذا تم دونوں قبول کر لو۔‘‘ ان دونوں حضرات نے کہا: ہمیں منظور ہے۔ پھر آپ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھوئے اور اس میں کلی بھی کی، پھر فرمایا: ’’تم دونوں اس میں سے کچھ نوش کر لو اور کچھ اپنے منہ اور سینے پر ڈال لو، نیز خوش ہو جاؤ۔‘‘ ہم دونوں پیالہ لے کر تعمیل حکم کرنے لگے تو حضرت ام سلمہ ؓ نے پس پردہ پکارا کہ اپنی ماں کے لیے بھی کچھ پانی چھوڑ دینا تو انہوں نے کچھ پانی بچا کر حضرت ام سلمہ ؓ کو دے دیا۔