قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ، قَالَهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب:

4370 .   حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمَ حُنَيْنٍ أَقْبَلَتْ هَوَازِنُ وَغَطَفَانُ وَغَيْرُهُمْ بِنَعَمِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلَافٍ وَمِنْ الطُّلَقَاءِ فَأَدْبَرُوا عَنْهُ حَتَّى بَقِيَ وَحْدَهُ فَنَادَى يَوْمَئِذٍ نِدَاءَيْنِ لَمْ يَخْلِطْ بَيْنَهُمَا الْتَفَتَ عَنْ يَمِينِهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ ثُمَّ الْتَفَتَ عَنْ يَسَارِهِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ قَالُوا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبْشِرْ نَحْنُ مَعَكَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ بَيْضَاءَ فَنَزَلَ فَقَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ فَأَصَابَ يَوْمَئِذٍ غَنَائِمَ كَثِيرَةً فَقَسَمَ فِي الْمُهَاجِرِينَ وَالطُّلَقَاءِ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ إِذَا كَانَتْ شَدِيدَةٌ فَنَحْنُ نُدْعَى وَيُعْطَى الْغَنِيمَةَ غَيْرُنَا فَبَلَغَهُ ذَلِكَ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ مَا حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ فَسَكَتُوا فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ تَحُوزُونَهُ إِلَى بُيُوتِكُمْ قَالُوا بَلَى فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ وَقَالَ هِشَامٌ قُلْتُ يَا أَبَا حَمْزَةَ وَأَنْتَ شَاهِدٌ ذَاكَ قَالَ وَأَيْنَ أَغِيبُ عَنْهُ

صحیح بخاری:

کتاب: غزوات کے بیان میں

 

تمہید کتاب  (

باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے

)
  تمہید باب

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

4370.   حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اے گروہ انصار!‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے گروہ انصار!‘‘ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: ’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انصار نے کہا: جب کوئی سخت مصیبت آتی ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور غنیمت کا مال ہمارے علاوہ دوسروں کو دیا جاتا ہے؟ آپ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کو ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: ’’اے جماعتِ انصار! وہ کیا بات ہے جو مجھے پہنچی ہے؟‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ’’اے گروہِ انصار! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ تو دنیا لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں اللہ کا رسول لے کر جاؤ؟‘‘ انہوں نے عرض کی: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی گھاٹی کو اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ لوں گا۔‘‘ (راوی حدیث) حضرت ہشام نے کہا: ابو حمزہ! کیا آپ وہاں حاضر تھے؟ انہوں نے جواب دیا: میں وہاں سے غائب کب ہوا تھا؟