تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس میں قبیلہ عبدالقیس کے لوگوں کا رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کا ذکر ہے۔ واضح رہے کہ وفد عبدالقیس رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دو دفعہ حاضر ہوا۔ ایک فتح مکہ سے پہلے چار یا پانچ ہجری میں، اس وقت یہ چودہ افراد پر مشتمل تھا۔ دوسری مرتبہ وفود کے سال حاضرہوا جبکہ اس وفد میں چالیس آدمی تھے۔ پہلے وفد کی تفصیل امام نووی ؒ نے بیان کی ہے کہ قبیلہ غنم بن ودیعہ کا ایک شخص "منقذبن حیان" زمانہ جاہلیت میں یثرب میں سامان تجارت لایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ اپنے سامان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے رسول اللہ ﷺ گزرے منقذ اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تو منقذ بن حیان ہے؟ تیری قوم کا اکیا حال ہے؟‘‘ پھر تمام سرداروں کے متعلق دریافت کیا اور ان کے نام بھی بتائے، اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سورہ فاتحہ اور﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ﴾ کی تعلیم دی۔ اسے عبدالقیس کے چند افراد کے نام ایک خط بھی لکھ کر دیا۔ جب وہ واپس آیا تو تو اس خط کو کچھ دن چھپائے رکھا بالآخراس کی بیوی کو پتہ چلا جو اشج عصری کی بیٹی تھی اپنے گھر میں منقذ نماز پڑھتا اور اس کی بیوی ان عجیب و غریب حرکات کو دیکھتی، اس نے ایک دن اپنے باپ سے ذکر کیا کہ جب سے میرا خاوند یثرب سے واپس آیا ہے تو ہاتھ پاؤں دھو کر قبلہ رخ ہو جاتا ہے، کبھی اپنے آپ کو جھکا لیتا ہے اور کبھی اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ہے، جب اشج نے منقذ سے اس کے متعلق گفتگو کی تو اسلام کی حقانیت اس کے دل میں بیٹھ گئی۔ پھر وہ رسول اللہ ﷺ کا خط لے کر اپنے قبیلہ عصر اور محارب کی طرف گیا خط پڑھ کر سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ ایک وفد تشکیل دیا گیا جن میں سے چند افراد کے نام یہ ہیں اشج عصری، یہ اس وفد کا امیر تھا مزیدہ بن مالک محاربی، عبیدہ بن ہمام محاربی، صحار بن عباس مری، عمرو بن موحوم عصری، حارث بن شعیب عصری اور حارث بن جندب، جب یہ وفد مدینہ کے قریب پہنچا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"ابھی تمھارے پاس اہل مشرق کے بہترین افراد پر مشتمل قبیلہ عبدالقیس کا وفد آنے والا ہے، اس میں اشج عصری بھی ہے۔" (شرح صحیح مسلم للنووي:253/1 ،254) حضرت عمر ؓ ان کے استقبال کے لیے گئے اور انھیں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی بشارت دی، پھر ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (فتح الباري:107/8)
2۔ نماز عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کے متعلق تفصیل کتاب الصلاۃ میں گزر چکی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس وفد عبدالقیس کی وجہ سے اس حدیث کو یہاں پیش کیا ہے۔ واللہ اعلم۔