باب: غزوئہ طائف کا بیان جوشوال سنہ 8ھ میں ہوا ۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیاہے
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Ghazwa of At-Taif)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
4370.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اے گروہ انصار!‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے گروہ انصار!‘‘ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: ’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انصار نے کہا: جب کوئی سخت مصیبت آتی ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور غنیمت کا مال ہمارے علاوہ دوسروں کو دیا جاتا ہے؟ آپ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کو ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: ’’اے جماعتِ انصار! وہ کیا بات ہے جو مجھے پہنچی ہے؟‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ’’اے گروہِ انصار! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ تو دنیا لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں اللہ کا رسول لے کر جاؤ؟‘‘ انہوں نے عرض کی: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی گھاٹی کو اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ لوں گا۔‘‘ (راوی حدیث) حضرت ہشام نے کہا: ابو حمزہ! کیا آپ وہاں حاضر تھے؟ انہوں نے جواب دیا: میں وہاں سے غائب کب ہوا تھا؟
تشریح:
1۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے عباس ؓ !اصحاب شجرہ کو آواز دو۔" آپ بہت بلند آواز تھے۔ انھوں نے اونچی آواز سے کہا: اصحاب ِشجرہ کہاں ہیں؟ ان کی آواز سنتے ہی بیعت کرنے والے ایسے لپکے جیسے گائیں اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔ سب کہنے لگے: ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔ پھر گھمسان کا رن پڑا تو رسول اللہ ﷺ نے کنکریاں مٹھی میں لے کر کافروں کے منہ پر دے ماریں اور فرمایا: ’’مجھے محمدﷺ کے رب کی قسم! کافرشکست کھا گئے ہیں۔‘‘ اس کے بعد کفار کو شکست سے دوچارہونا پڑا۔ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث:4612(1775)) 2۔ اس غزوے میں رسول اللہ ﷺ اکیلے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آدمی تھے۔ آپ کا ارادہ ہوا کہ دشمن پرٹوٹ پڑیں، اس لیے آپ اکیلے بڑھے مگر ابوسفیان بن حارث آپ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے آپ کو آگے نہ جانے دیا، حضرت عباس ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4156
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4337
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4337
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4337
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
طائف ملے سے ننانوے (99) کلو میٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت شہر ہے۔ قرآن قرآن کریم نے اس کازکر ان الفاظ میں کیا ہے:"یہ قرآن دو شہروں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا۔"( الزخرف 43۔31۔)دوشہروں سے مراد مکہ مکرمہ اور طائف ہیں۔ اس کی سطح مرتفع اور جگہ بڑی زرخیر ہے۔ اس کا پانی ٹھنڈا زدو ہضم اور خوشگوار ہے۔ وہاں جملہ اقسام کے پھل میوے اور غلے پیدا ہوتے ہیں طائف کے انگور بہت مشہور ہیں۔ موسم انتہائی معتدل اور خوشگوار ہے۔ وہاں جملہ اقسام کے پھل میوے اور غلے پیدا ہوتے ہیں طائف کے انگور بہت مشہور ہیں۔موسم انتہائی معتدل اور خوشگوار رہتا ہے۔ موسم گرما میں سعودیہ کے اکثر سرکاری محکمے وہاں منتقل ہو جاتے ہیں اور بیشتر رؤسائے مکہ بھی طائف چلے جاتے ہیں قبیلہ ہوازن کے بچے کھچے لوگ طائف میں پناہ گزیں ہوئے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سرکوبی کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ’’اے گروہ انصار!‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے گروہ انصار!‘‘ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: ’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انصار نے کہا: جب کوئی سخت مصیبت آتی ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور غنیمت کا مال ہمارے علاوہ دوسروں کو دیا جاتا ہے؟ آپ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ان کو ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: ’’اے جماعتِ انصار! وہ کیا بات ہے جو مجھے پہنچی ہے؟‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ’’اے گروہِ انصار! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ تو دنیا لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں اللہ کا رسول لے کر جاؤ؟‘‘ انہوں نے عرض کی: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی گھاٹی کو اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ لوں گا۔‘‘ (راوی حدیث) حضرت ہشام نے کہا: ابو حمزہ! کیا آپ وہاں حاضر تھے؟ انہوں نے جواب دیا: میں وہاں سے غائب کب ہوا تھا؟
حدیث حاشیہ:
1۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے عباس ؓ !اصحاب شجرہ کو آواز دو۔" آپ بہت بلند آواز تھے۔ انھوں نے اونچی آواز سے کہا: اصحاب ِشجرہ کہاں ہیں؟ ان کی آواز سنتے ہی بیعت کرنے والے ایسے لپکے جیسے گائیں اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔ سب کہنے لگے: ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔ پھر گھمسان کا رن پڑا تو رسول اللہ ﷺ نے کنکریاں مٹھی میں لے کر کافروں کے منہ پر دے ماریں اور فرمایا: ’’مجھے محمدﷺ کے رب کی قسم! کافرشکست کھا گئے ہیں۔‘‘ اس کے بعد کفار کو شکست سے دوچارہونا پڑا۔ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث:4612(1775)) 2۔ اس غزوے میں رسول اللہ ﷺ اکیلے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آدمی تھے۔ آپ کا ارادہ ہوا کہ دشمن پرٹوٹ پڑیں، اس لیے آپ اکیلے بڑھے مگر ابوسفیان بن حارث آپ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے آپ کو آگے نہ جانے دیا، حضرت عباس ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد اللہ بن عون نے، ان سے ہشام بن زید بن انس بن مالک نے اور ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ جب حنین کا دن ہوا تو قبیلہ ہوا زن اور غطفان اپنے مویشی اور بال بچوں کو ساتھ لے کر جنگ کے لیے نکلے۔ اس وقت آنحضرت ﷺ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا۔ ان میں کچھ لوگ وہ بھی تھے، جنہیں آنحضور ﷺ نے فتح مکہ کے بعد احسان رکھ کر چھوڑ دیا تھا، پھر ان سب نے پیٹھ پھیر لی اور حضور اکرم ﷺ تنہا رہ گئے۔ اس دن حضور ﷺ نے دومرتبہ پکا را دونوں پکار ایک دوسرے سے الگ الگ تھیں، آپ نے دائیں طرف متوجہ ہوکر پکارا، اے انصاریو! انہوں نے جواب دیا ہم حاضر ہیں یا رسو ل اللہ! آپ کو بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں، لڑنے کو تیار ہیں۔ پھر آپ بائیں طرف متوجہ ہوئے اور آواز دی اے انصاریو! انہوں نے ادھر سے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں یا رسو ل اللہ ! بشارت ہو، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ حضور اس وقت ایک سفید خچر پر سوار تھے پھر آپ اتر گئے اور فرمایا میں اللہ کا بندہ اوراس کا رسو ل ہوں۔ انجام کار کافروں کو ہار ہوئی اور اس لڑائی میں بہت زیادہ غنیمت حاصل ہوئی۔ حضور انے اسے مہاجرین میں اور قریشیوں میں تقسیم کر دیا (جنہیں فتح مکہ کے موقع پر احسان رکھ کر چھوڑدیا تھا) انصار کو ان میں سے کچھ نہیں عطا فرمایا۔ انصار (کے بعض نوجوانوں) نے کہا کہ جب سخت وقت آتا ہے تو ہمیں بلایا جاتا ہے اور غنیمت دوسروں کو تقسیم کر دی جاتی ہے۔ یہ بات حضور اکرم ﷺ تک پہنچی تو آپ نے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کیا اور فرمایا اے انصار یو! کیا وہ بات صحیح ہے جو تمہا رے بارے میں مجھے معلوم ہوئی ہے؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے پھر آ نحضور ﷺ نے فرمایا اے انصاریو! کیا تم اس پر خوش نہیں ہوکہ لوگ دنیا اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کواپنے گھر لے جاؤ۔ انصاریو نے عرض کیاہم اسی پر خوش ہیں۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کسی گھاٹی میں چلیں تو میں انصار ہی کی گھاٹی میں چلنا پسند کروں گا۔ اس پر ہشام نے پوچھا اے ابو حمزہ! کیا آ پ وہاں موجود تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں حضور ﷺ سے غائب ہی کب ہوتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
مسلم کی رویت میں ہے کہ آپ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا شجرہ رضوان والوں کو آواز دو۔ ان کی آ واز بلند تھی۔ انہوں نے پکارا اے شجرہ رضوان والو! تم کہاں چلے گئے ہو، ان کی پکار سنتے ہی یہ لوگ ایسے لپکے جیسے گائیں شفقت سے اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔ سب کہنے لگے ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas Bin Malik (RA) : When it was the day (of the battle) of Hunain, the tributes of Hawazin and Ghatafan and others, along with their animals and offspring (and wives) came to fight against the Prophet (ﷺ) The Prophet (ﷺ) had with him, ten thousand men and some of the Tulaqa. The companions fled, leaving the Prophet (ﷺ) alone. The Prophet (ﷺ) then made two calls which were clearly distinguished from each other. He turned right and said, "O the group of Ansar!" They said, "Labbaik, O Allah's Apostle (ﷺ) ! Rejoice, for we are with you!" Then he turned left and said, "O the group of Ansar!" They said, "Labbaik! O Allah's Apostle (ﷺ) ! Rejoice, for we are with you!" The Prophet (ﷺ) at that time, was riding on a white mule; then he dismounted and said, "I am Allah's Slave and His Apostle." The infidels then were defeated, and on that day the Prophet (ﷺ) gained a large amount of booty which he distributed amongst the Muhajirin and the Tulaqa and did not give anything to the Ansar. The Ansar said, "When there is a difficulty, we are called, but the booty is given to other than us." The news reached the Prophet (ﷺ) and he gathered them in a leather tent and said, "What is this news reaching me from you, O the group of Ansar?" They kept silent, He added," O the group of Ansar! Won't you be happy that the people take the worldly things and you take Allah's Apostle (ﷺ) to your homes reserving him for yourself?" They said, "Yes." Then the Prophet (ﷺ) said, "If the people took their way through a valley, and the Ansar took their way through a mountain pass, surely, I would take the Ansar's mountain pass." Hisham said, "O Abu Hamza (i.e. Anas)! Did you witness that? " He replied, "And how could I be absent from him?"