تشریح:
1۔ یہ حدیث پہلے (حدیث :335کے تحت) گزر چک ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے یہاں بیان کرنے کا مقصد بایں الفاظ متعین کیا ہے قبل ازیں متعدد ابواب میں مختلف مقامات پر نمازپڑھنے کی جو کراہت بیان ہوئی ہے، وہ تحریم کے لیےنہیں، کیونکہ ’’میرے لیے تمام روئے زمین کو سجدہ گاہ بنا دیا گیا ہے‘‘ کے عموم کا تقاضا ہے کہ اس زمین کا ہر جز جائے سجدہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے یا وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قبل ازیں بیان شدہ کراہت تحریم کے لیے ہو اور حدیث جابر کے اس ٹکڑے کو اس سے خاص کردیا جائے، یعنی مقابر کے علاوہ روئے زمین سجدہ گا ہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسرا احتمال زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مقابر میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور آپ کا حکم امتناعی تحریم کے لیے ہوتا ہے، الایہ کہ وہاں کسی قرینے کی موجودگی میں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے۔ یہاں کوئی قرینہ موجود نہیں، اس لیے ہمارے نزدیک مقابر اور درباروں پر نماز ادا کرنا حدیث جابر کے عموم سے مخصوص ہو گا یعنی مزارات ومقابر کے علاوہ دیگر روئے زمین سجدہ گاہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ اس حدیث کی تشریح حدیث 335 کے تحت ہو چکی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا آپ کی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ تمام انبیاء علیہم السلام سے ممتاز ہیں نیز آپ کا رعب اور دبدبہ اس قدر تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ اور ان کی مضبوط ترین حکومتیں آپ کا نام سن کر لرزہ براندام ہو جاتی تھیں۔ اب بھی دشمنان رسول اور مخالفان حدیث رسول کا یہی حشر ہوتا ہے کہ وہ کسی میدان میں اہل حق کے سامنے نہیں ٹھہرسکتے، بلکہ ذلت کی موت مرتے ہیں۔ جیسا کہ غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز وغیرہ ذلیل و خوار ہو کر مرے ہیں۔