تشریح:
1۔ یہ واقعہ فتح مکہ کا ہے جوآٹھ ہجری میں ہوا یہ عنوان حجۃ الوداع ہے جو دس ہجری میں کیا گیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اشکال وارد کیا ہے کہ نہ معلوم امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو حجۃ الوداع میں کیوں بیان کیا ہے؟ (فتح الباري:132/8)
2۔ دراصل یہاں کوئی اشکال نہیں بلکہ امام بخاری ؒ ایک اختلافی مسئلے پرتنبیہ کرناچاہتے ہیں۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہےکہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے کیونکہ جب فتح مکہ کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہونا یقینی ہے۔ حالانکہ اس سفر کامقصد صرف جہاد کرنا ار کفر کو دبانا تھا، بیت اللہ کی زیارت مقصود نہ تھی تو حجۃ الوداع کےموقع پر بطریق اولیٰ دخول ثابت ہوگا۔ کیونکہ یہ سفر تو محض بیت اللہ کی زیارت کے لیے تھا بلکہ ایک صریح حدیث سے بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ میرے پاس تشریف لائے تو چہرہ مبارک پر حزن وملال تھا، حالانکہ جب آپ میرے پاس سے گئے تھے تو اس وقت آپ کے چہرے پر خوشی ومسرت کے آثار نمایاں تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں بیت اللہ میں داخل ہوا ہوں اور میں نے بیت اللہ میں داخل ہوکر اپنی اُمت کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ اگرمجھے اس امر کااحساس پہلے ہوجاتا جواب ہوا ہے تو کبھی بیت اللہ میں داخل نہ ہوتا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2029)
3۔ اگرچہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کی تصریح نہیں ہے۔ تاہم یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فتح مکہ کے وقت ہمرا ہ نہیں تھیں، البتہ حجۃ الوداع پرآپ کے ساتھ تھیں اور اس امر پر اتفاق ہے کہ فتح مکہ سے پہلے آپ بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے۔ ممکن ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر اندر داخل ہوکر مورتیوں کو توڑا ہو اور حجۃ الوداع کے موقع پر داخل ہوکر نماز پڑھی ہو۔ اس صورت میں (عَامَ فَتحِ مَكَّةَ) کے الفاظ کسی راوی کے وہم پر مبنی ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہم راوی نہ ہو بلکہ روایت کا پہلا حصہ عام فتح مکہ پر محمول ہواور دوسرا حصہ جہاں بیت اللہ کادرواہ بند کرنے کا ذکر ہے وہ حجۃ الوداع پرمحمول ہو۔ واللہ اعلم۔