تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں اس روایت کو تقریباً پچیس مقامات پر بیان فرمایا ہے اور اس سے متعدد مسائل ثابت کیے ہیں۔ اس روایت میں اگرچہ سفر کا تذکرہ نہیں، تاہم مفصل روایت میں ہے ، چنانچہ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں: ایک غزوے سے واپسی کے موقع پر میرا اونٹ تھک گیا، آپ ادھر سے گزرے تو آپ نے دعا فرمائی اور اونٹ کوچھڑی لگادی، پھر کیاتھا، اونٹ تیز چلنے لگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ !یہ اونٹ ہمیں فروخت کردو۔‘‘ پہلے تو میں نے انکار کیا، بالآخر آپ ﷺ کے اصرار پر میں نے آپ کو فروخت کردیا اور آپ نے مدینے تک اس پر سواری کی مجھے اجازت دے دی۔ آپ مدینہ پہلے پہنچ گئے، میں صبح کے وقت پہنچا۔مدینے پہنچتے ہی میں نے وہ اونٹ آپ کی خدمت میں پیش کردیا ۔آپ نے پہلے تو مجھے دورکعت اداکرنے کی ہدایت فرمائی، پھر اونٹ کی قیمت اداکردی اور کچھ زیادہ بھی دیا، نیز جب میں واپس آنے لگا تو اونٹ بھی میرے حوالے کردیا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2097) اس روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت جابر ؓ سفرسے واپسی کے بعد جب اونٹ کی قیمت لینے کے لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دورکعت پڑھنے کی ہدایت فرمائی، لہذاسفر سے واپسی پر دورکعت پڑھنے کا استحباب ثابت ہوگیا۔ اس حدیث کئ دیگر طرق پر نظر نہ ہونے کی وجہ سے مغلطائی نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ روایت میں چونکہ سفر سے واپسی کاذکر نہیں۔ اس لیے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت نہیں۔ (فتح الباري:695/1) 2۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مذکورہ دورکعت "صلاة قدوم" ہے۔ یہ تحیۃ المسجد نہیں جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں بیٹھنے سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیاہے۔ البتہ صلاۃ قدوم ادا کرنے سے تحیۃ المسجد بھی ادا ہوجائے گی، اس کا الگ اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں۔