صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
56. باب: نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ میرے لیے ساری زمین پر نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے (یعنی تیمم کرنے) کی اجازت ہے۔
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
56. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : جُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
56. Chapter: The sayings of the Prophet (pbuh) "The earth has been made for me a Masjid (place for praying) and a thing to purify (to perform Tayammum)."
باب: نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ میرے لیے ساری زمین پر نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے (یعنی تیمم کرنے) کی اجازت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The sayings of the Prophet (pbuh) "The earth has been made for me a Masjid (place for praying) and a thing to purify (to perform Tayammum).")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
444.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی پیغمبر کو نہیں دی گئیں: مجھے ایک مہینے کی مسافت سے رعب عطا کر کے میری مدد فرمائی گئی۔ پوری روئے زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا، چنانچہ میری امت کے کسی فرد کو جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے، اسی جگہ نماز پڑھ لینی چاہئے۔ مال غنیمت کو میرے لیے حلال کر دیا گیا۔ اور ہر نبی کو قبل ازیں مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کے لیے مبعوث کیا گیا اور مجھے شفاعت ( کبریٰ) کا حق دیا گیا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ یہ حدیث پہلے (حدیث :335کے تحت) گزر چک ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے یہاں بیان کرنے کا مقصد بایں الفاظ متعین کیا ہے قبل ازیں متعدد ابواب میں مختلف مقامات پر نمازپڑھنے کی جو کراہت بیان ہوئی ہے، وہ تحریم کے لیےنہیں، کیونکہ ’’میرے لیے تمام روئے زمین کو سجدہ گاہ بنا دیا گیا ہے‘‘ کے عموم کا تقاضا ہے کہ اس زمین کا ہر جز جائے سجدہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے یا وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قبل ازیں بیان شدہ کراہت تحریم کے لیے ہو اور حدیث جابر کے اس ٹکڑے کو اس سے خاص کردیا جائے، یعنی مقابر کے علاوہ روئے زمین سجدہ گا ہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسرا احتمال زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مقابر میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور آپ کا حکم امتناعی تحریم کے لیے ہوتا ہے، الایہ کہ وہاں کسی قرینے کی موجودگی میں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے۔ یہاں کوئی قرینہ موجود نہیں، اس لیے ہمارے نزدیک مقابر اور درباروں پر نماز ادا کرنا حدیث جابر کے عموم سے مخصوص ہو گا یعنی مزارات ومقابر کے علاوہ دیگر روئے زمین سجدہ گاہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ اس حدیث کی تشریح حدیث 335 کے تحت ہو چکی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا آپ کی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ تمام انبیاء علیہم السلام سے ممتاز ہیں نیز آپ کا رعب اور دبدبہ اس قدر تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ اور ان کی مضبوط ترین حکومتیں آپ کا نام سن کر لرزہ براندام ہو جاتی تھیں۔ اب بھی دشمنان رسول اور مخالفان حدیث رسول کا یہی حشر ہوتا ہے کہ وہ کسی میدان میں اہل حق کے سامنے نہیں ٹھہرسکتے، بلکہ ذلت کی موت مرتے ہیں۔ جیسا کہ غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز وغیرہ ذلیل و خوار ہو کر مرے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
434
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
438
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
438
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
438
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی پیغمبر کو نہیں دی گئیں: مجھے ایک مہینے کی مسافت سے رعب عطا کر کے میری مدد فرمائی گئی۔ پوری روئے زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ اور طہارت کا ذریعہ بنا دیا گیا، چنانچہ میری امت کے کسی فرد کو جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے، اسی جگہ نماز پڑھ لینی چاہئے۔ مال غنیمت کو میرے لیے حلال کر دیا گیا۔ اور ہر نبی کو قبل ازیں مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کے لیے مبعوث کیا گیا اور مجھے شفاعت ( کبریٰ) کا حق دیا گیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ حدیث پہلے (حدیث :335کے تحت) گزر چک ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے یہاں بیان کرنے کا مقصد بایں الفاظ متعین کیا ہے قبل ازیں متعدد ابواب میں مختلف مقامات پر نمازپڑھنے کی جو کراہت بیان ہوئی ہے، وہ تحریم کے لیےنہیں، کیونکہ ’’میرے لیے تمام روئے زمین کو سجدہ گاہ بنا دیا گیا ہے‘‘ کے عموم کا تقاضا ہے کہ اس زمین کا ہر جز جائے سجدہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے یا وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قبل ازیں بیان شدہ کراہت تحریم کے لیے ہو اور حدیث جابر کے اس ٹکڑے کو اس سے خاص کردیا جائے، یعنی مقابر کے علاوہ روئے زمین سجدہ گا ہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسرا احتمال زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مقابر میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور آپ کا حکم امتناعی تحریم کے لیے ہوتا ہے، الایہ کہ وہاں کسی قرینے کی موجودگی میں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے۔ یہاں کوئی قرینہ موجود نہیں، اس لیے ہمارے نزدیک مقابر اور درباروں پر نماز ادا کرنا حدیث جابر کے عموم سے مخصوص ہو گا یعنی مزارات ومقابر کے علاوہ دیگر روئے زمین سجدہ گاہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ واللہ أعلم۔ 2۔ اس حدیث کی تشریح حدیث 335 کے تحت ہو چکی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا آپ کی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ تمام انبیاء علیہم السلام سے ممتاز ہیں نیز آپ کا رعب اور دبدبہ اس قدر تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ اور ان کی مضبوط ترین حکومتیں آپ کا نام سن کر لرزہ براندام ہو جاتی تھیں۔ اب بھی دشمنان رسول اور مخالفان حدیث رسول کا یہی حشر ہوتا ہے کہ وہ کسی میدان میں اہل حق کے سامنے نہیں ٹھہرسکتے، بلکہ ذلت کی موت مرتے ہیں۔ جیسا کہ غلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز وغیرہ ذلیل و خوار ہو کر مرے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابوالحکم سیار نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یزید فقیر نے، کہا ہم سے جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے انبیاء کو نہیں دی گئی تھیں۔ ( 1 ) ایک مہینے کی راہ سے میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی۔ ( 2 ) میرے لیے تمام زمین میں نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ اس لیے میری امت کے جس آدمی کی نماز کا وقت ( جہاں بھی ) آ جائے اسے ( وہیں ) نماز پڑھ لینی چاہیے۔ ( 3 ) میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا۔ ( 4 ) پہلے انبیاء خاص اپنی قوموں کی ہدایت کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ لیکن مجھے دنیا کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ( 5 ) مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ زمین کے ہر حصہ پرنماز اوراس سے تیمم کرنا درست ہے۔ بشرطیکہ وہ حصہ پاک ہو۔ مال غنیمت وہ جو اسلامی جہاد میں فتح کے نتیجہ میں حاصل ہو۔ یہ آپ ﷺ کی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ سارے انبیاء میں ممتاز ہیں۔ اللہ نے آپ ﷺ کا رعب اس قدر ڈال دیاتھا کہ بڑے بڑے بادشاہ دور دراز بیٹھے ہوئے محض آپ کا نام سن کر کانپ جاتے تھے۔ کسریٰ پرویز نے آپ کا نامہ مبارک چاک کرڈالا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑے ہی دنوں بعد اسی کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھ سے اس کا پیٹ چاک کرادیا۔ اب بھی دشمنان رسول کا یہی حشر ہوتاہے کہ وہ ذلت کی موت مرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "I have been given five things which were not given to any amongst the Prophets before me. These are: 1. Allah made me victorious by awe (by His frightening my enemies) for a distance of one month's journey. 2. The earth has been made for me (and for my followers) a place for praying and a thing to perform Tayammum. Therefore my followers can pray wherever the time of a prayer is due. 3. The booty has been made Halal (lawful) for me (and was not made so for anyone else). 4. Every Prophet (ﷺ) used to be sent to his nation exclusively but I have been sent to all mankind. 5. I have been given the right of intercession (on the Day of Resurrection.