تشریح:
1۔ (عَبدُالعَصَا) کے معنی ہیں لاٹھی کا بندہ یعنی مسافر کیونکہ مسافر ہاتھ میں لاٹھی رکھتا ہے، اس کی حمایت کرنے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ حضرت عباس ؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا، اس لیے خلافت کا فیصلہ آپ کی زندگی میں ہو جانا چاہیے۔
2۔ مرض میں ایک ایک چیز سنبھالنے کی ہوتی ہے۔ چونکہ حضرت علی ؓ ناتجربہ کار تھے اس لیے انھیں اس بات کا ادراک نہ ہوا جبکہ حضرت عباس ؓ تجربہ کار تھے انھیں اس امر کا احساس ہو گیا۔ یہ حضرت عباس ؓ کی فراست تھی۔
3۔ اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓ کے دل میں خلافت کی تمنا موجود تھی چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے کہا: کیا ہمارے بغیر بھی کوئی اس خلافت کی طمع رکھتا ہے۔ حضرت عباس ؓ نے کہا میرا بھی یہی گمان ہے۔ ابن سعد کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی تو حضرت عباس ؓ نے حضرت علی ؓ سے کہا: ہاتھ پھیلاؤ تاکہ میں تمھاری بیعت کروں۔ پھر دوسرے لوگ بھی بیعت کر لیں گے۔ لیکن حضرت علی ؓ نے ایسا نہ کیا، اس کے بعد حضرت علی ؓ کہا کرتے تھے کاش ! میں حضرت عباس ؓ کی بات مان لیتا۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:28/4)
4۔ شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ وصی رسول ہیں۔ یعنی آپ نے ان کے لیے خلافت کی وصیت کی تھی۔ اگر یہ مفروضہ صحیح ہے تو انھیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں محروم کر دیا تو آپ کے بعد لوگ ہیں کبھی خلیفہ نہیں بنائیں گے۔ بہر حال شیعہ حضرات کی وصیت والی بات لغو اور من گھڑت ہے۔ (فتح الباري:179/8)