قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ:مَا جَاءَ فِي فَاتِحَةِ الكِتَابِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَسُمِّيَتْ أُمَّ الكِتَابِ أَنَّهُ يُبْدَأُ بِكِتَابَتِهَا فِي المَصَاحِفِ، وَيُبْدَأُ بِقِرَاءَتِهَا فِي الصَّلاَةِ، وَالدِّينُ: الجَزَاءُ فِي الخَيْرِ وَالشَّرِّ، كَمَا تَدِينُ تُدَانُ " وَقَالَ مُجَاهِدٌ: " {بِالدِّينِ} [الانفطار: 9]: بِالحِسَابِ، {مَدِينِينَ} [الواقعة: 86]: مُحَاسَبِينَ "

4474. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ قَالَ حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُجِبْهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي فَقَالَ أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ثُمَّ قَالَ لِي لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ السُّوَرِ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ قُلْتُ لَهُ أَلَمْ تَقُلْ لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

الفاظ الرحمن الرحیم ( اللہ تعالیٰ کی ) یہ دو صفتیںہیں جو لفظ الرحمۃ سے نکلے ہیں ۔ الرحیم اور الراحم دونوں کے ایک ہی معنیٰ ہیں ، جیسے العلیم اور العالم جاننے والا دونوں کا ایک ہی معنیٰ ہے ام ، ماں کو کہتے ہیں ۔ ام الکتاب اس سورہ کانام اس لیے رکھا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اسی سے کتابت کی ابتداء ہوتی ہے ۔ ( اسی لیے اسے فاتحۃ الکتاب بھی کہا گیا ہے ) اور نماز میں بھی قرات اسی سے شروع کی جاتی ہے اور ” الدین “ بدلہ کے معنی میں ہے ۔ خواہ اچھائی میں ہو یا برائی میں جیسا کہ ( بولتے ہیں ) ” کماتدین تدان “ ( جیسا کروگے ویسا پھروگے ) مجاہد نے کہا کہ ” الدین “ حساب کے معنیٰ میں ہے ۔ جبکہ ” مدینین “ بمعنیٰ ” محاسبین “ ہے ۔ یعنی حساب کئے گئے۔

4474.

حضرت ابو سعید بن معلیٰ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی لیکن میں اس وقت حاضر نہ ہو سکا۔ (نماز پڑھ کر آپ کے پاس آیا) تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد گرامی نہیں: ’’اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جب وہ تمہیں بلائیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’میں تیرے مسجد سے باہر جانے سے قبل تجھے ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑھ کر ہے۔‘‘ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ جب آپ نے مسجد سے باہر آنے کا ارادہ فرمایا تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا تھا: ’’میں تجھے ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی تمام سورتوں سے بڑھ کر ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’وہ سورت (الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ یعنی فاتحہ ہے۔ یہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔‘‘