تشریح:
1۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں یہی واقعہ حضرت ابی بن کعب ؓ کےمتعلق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: "کیا میں تجھے ایسی صورت سے آگاہ نہ کروں جوتورات، انجیل، زبوراورفرقان میں نازل نہیں ہوئی۔" (جامع الترمذي، فضائل القرآن، حدیث:2875) اس حدیث سے سورۃ الفاتحہ کی عظمت ورفعت کا پتہ چلتا ہے۔
2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ انسان خواہ کتنے ہی ضروری کام میں مصروف ہو، اسے رسول اللہ ﷺ کے بلانے پر نماز چھوڑ کر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔ اس کے علاوہ حدیث جریج (صحیح بخاري، حدیث:1206) سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کے بلانے پر انسان کو نفلی نماز توڑکر اسی وقت حاضر ہوجانا چاہیے، عدم تعمیل کی صورت میں والدین کی آہ سے سنگین نتائج سے دوچار ہونے کا اندیشہ ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق اپنی صحیح میں ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، باب:7)
3۔ واضح رہے کہ سورت فاتحہ کو سبع مثانی درج ذیل وجوہات کی بنا پر کہا گیا ہے: *۔ اس کی سات آیات کو نماز میں بار بار پڑھا جاتا ہے یا اس کا نزول دومرتبہ ہوا: ایک مرتبہ مکہ میں اور دوسری بار مدینہ طیبہ میں۔ *۔اس میں بڑے جامع انداز میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور ثنا بیان کی گئی ہے۔ *۔ یہ سورت اُمت محمدیہ کو استثنائی اورخصوصی طور پر عطا کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مثانی خواہ تثنیہ سے ماخوذ ہو یا ثنا سے یا استثناء سے اسے بنا یا گیا ہو، ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ ان سب وجوہ کی بنا پر اس سورت کو سبع مثانی کہا گیاہے۔ واللہ اعلم۔ اور اسے القرآن العظیم اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن کریم کے بنیادی مضامین اس سورت میں اجمالاً آگئے ہیں، گویا کوزے میں سمندر کو بند کردیا گیا ہے۔ وہ یوں کہ سب سے پہلے اللہ کی معرفت اور اس کی حمدوثنا، پھر یوم آخرت میں جزاوسزا کا جامع تذکرہ، اس کے بعد شرک کی تمام اقسام سے مکمل طور پر بچنے کا اقرار اورصراط مستقیم پر گامزن رہنے کی التجا، نیز صراط مستقیم کی مختصر توضیح، یہی وہ مضامین ہیں جو مختلف انداز میں آگے بیان کیے گئے ہیں۔ 4۔ صحیح بخاری کی بعض روایات (حدیث:4647) میں القرآن العظیم کا اضافہ نہیں ہے۔ جن روایات میں یہ الفاظ موجود ہیں محدثین نے اس کی توجیہ ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآنی آیت (الحجر:87) کے نظم کی رعایت کرتے ہوئے تذکرہ فرمایا ہے کہ مجھے سورت فاتحہ کے علاوہ قرآن عظیم بھی دیا گیا ہے۔ (فتح الباري:199/8)