تشریح:
1۔ فرشتوں کے آمین کہنے کی علامت امام کا آمین کہنا ہے، لہذا ہمیں حکم ہے کہ ہم امام کی آمین کے ساتھ ہی آمین کہیں جبکہ نماز کے دیگر ارکان میں امام کی متابعت کا حکم دیا گیا ہے۔آمین کہتے وقت ہم متابعت کے بجائے موافقت کے پابند ہیں، البتہ امام کی مخالفت اور اس سے مسابقت کسی صورت میں جائز نہیں۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہواکہ نماز میں آمین بآواز بلند کہنی چاہیے۔ بعض روایات میں آمین بآواز بلند کہنے کے الفاظ بھی مروی ہیں۔ بعض دوسری روایات میں (وَرَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ) کے الفاظ ہیں۔ (فتح الباری:342/2) حضرت وائل بن حجر ؒ سے بھی بلند آواز آمین کہنے کی روایت مروی ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:932، و صحیح ابن حبان، الأذان والإقامة، حدیث:570۔571) امام بخاری ؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور ان کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے اونچی آواز سے آمین کہتے تھے یہاں تک کہ مسجد ان کی آواز سے گونج اٹھتی۔ (صحیح البخاري، الصلاة، باب:11معلقاً) (مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ) سے مراد یہود ہیں جیسا کہ ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ اللہ کی طرف سے غصے پر غصہ لے کر واپس ہوئے۔'' (البقرة:90/2) (الضَّالِّينَ) سے مراد عیسائی ہیں جیسا کہ ان کےمتعلق قرآن میں ہے: "وہ خود پہلے سے گمراہ تھے اور بہت لوگوں کو انھوں نے گمراہ کیا۔'' (المائدة:77/5) رسول اللہ ﷺ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے جیساکہ حضرت عدی بن حاتم نے بیا ن کیاہے۔ (مسند أحمد:378/4۔ وفتح الباري:200/8)
2۔ اس مقام پر علامہ عینیؒ نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ اس عنوان کا یہاں کوئی محل نہیں اور نہ ذکر کردہ حدیث کاتفسیر سے کوئی تعلق ہی ہے۔ (عمدة القاري:413/12) لیکن ان کا یہ اعتراض بے محل ہے کیونکہ امام بخاریؒ تفسیر قرآن کے متعلق متاخرین کے برعکس ایک جداگانہ انداز ہے۔ متاخرین کی تفسیر میں مشکلات کا حل اور مسائل کی تحقیق ہوتی جبکہ امام بخاریؒ کے یہاں تفسیر عام ہے۔ خواہ کسی کلمے کی شرح کرنا ہو یا کلام سے جو قصہ منسلک ہو اس کی تفصیل بیان کی جاتی ہے، جو چیزیں سورت مکمل ہونے کے بعد پڑی جاتی ہیں، انھیں بیان کرنا بھی تفسیر میں شامل ہے۔ ان کے انداز تفسیر میں یہ بھی شامل ہے کہ قرآن مجید کا کوئی لفظ حدیث میں آجائے تو اس حدیث کو بھی تفسیر کے تحت بیان کردیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ دونوں جگہ ایک ہی معنی مراد ہیں۔ اس حدیث میں بھی اختتام فاتحہ کے بعد آمین کہنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس وضاحت سے علامہ عینیؒ کے اعتراض کی حقیقت کھل جاتی ہے کہ ان کا اعتراض کرنا بے فائدہ ہے۔ واللہ اعلم۔