تشریح:
1۔ (نِدَّا) ہمسر اور برابر والے کو کہتے ہیں، (أَندَاد) اس کی جمع ہے۔ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ ہی کو خالق ارض وسماء مانتے تھے اس کے باوجود انھیں مشرک قراردیا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات، مثلاً: محیط، سمیع،علیم، قدیر کو اللہ کے ماسوا میں مانتے تھے، لہذا کوئی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرتا ہے، اس کے نام پر ذبح کرتا ہے یا اس کی نذر مانتا ہے یا اس کی قبر پر نذرونیاز چڑھاتا ہے یا اس کے نام کا وظیفہ پڑھتا ہے تو گویا وہ اسے اللہ کا ہمسر اور(نِد) مانتا ہے۔ یہ توحید کے منافی ہے۔ توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرے بلکہ یہ عقیدہ رکھے کہ نفع ونقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اولاد دینا، بارش برسانا، رزق میں فراخی کرنا، زندگی دینا اورمارنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
2۔ الغرض توحید کی دوقسمیں ہیں: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کوخالق اورمالک تسلیم کیا جائے، اسے توحید ربوبیت کہتے ہیں۔ اس توحید کے مشرکین بھی قائل تھے۔ یہ توحید نجات کے لیے کافی نہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ معبود حقیقی صرف اللہ کو مانا جائے، عبادت کی جملہ اقسام صرف ایک کےلیے بجالائیں، اسے توحید الوہیت کہتے ہیں۔ تمام انبیاءؑ اسی توحید کے علمبردار تھے اور اسی کی دعوت دیتے تھے۔ اسی پر قیامت کے دن نجات کا دارومدار ہے، مشرکین مکہ اس توحید کے منکر تھے، اسی بنا پر انھیں ابدی جہنمی کہا گیا ہے۔
3۔ دور جاہلیت میں لوگ مفلسی کے ڈر سے اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی ماردیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں اس پر تنبیہ فرمائی: "مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، انھیں اور تمھیں ہم ہی رزق دیتے ہیں، یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔" (فتح الباری:204/8) یہ گناہ درحقیقت کئی گناہوں پر مشتمل ہے، اول بے گناہ کو قتل کرنا، دوسرے اپنے بیٹے کو مارنا، تیسرے ایسے شخص کو قتل کرنا جو اپنا دفاع نہ کرسکتا ہو اور چوتھے اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ ہمارے ساتھ کھائے گا، گویا وہ روزی رساں ہیں۔ اللہ کے روزی دینے پر اعتماد وتوکل نہیں۔ افسوس! کہ آج کا قتل اولاد کا گناہ عظیم خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر پوری دنیا میں بڑے منظم طریقے سے ہورہاہے۔ مردحضرات ’’بہتر تعلیم وتربیت‘‘ کے نام پر اورخواتین اپنے مزعومہ حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اس جرم کا سرعام ارتکاب کررہی ہیں۔ زمانہ جاہلیت کا یہ فعل ہمارے تعلیم یافتہ دور میں بڑے زور وشورسے جاری ہے۔
4۔ زنا بہت گھناؤنا جرم ہے۔ اس کی شناعت وقباحت کو ملاحظہ کریں کہ شادی شدہ زنا کار اس قابل نہیں کہ اسے دنیا میں زندہ رہنے دیا جائے بلکہ پتھر مار مار کر اسے صفحہ ہستی سے مٹادینا شریعت کا اہم تقاضا ہے، بالخصوص جب وہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے منہ کالا کرے جس کے احترام و اکرام کی شریعت نے بہت تاکیدکی ہے۔ واللہ المستعان۔
5۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں صحابی کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تصدیق ان الفاظ میں نازل فرمائی ہے: "اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور نہ کسی ناحق جان کو قتل کرتے ہیں اور وہ زنا بھی نہیں کرتے اور جو انسان یہ کام کرے گا، اس نے بڑے گناہ کا ارتکاب کیا، قیامت کے دن اسے دوگنا عذاب دیا جائے گا۔" (بني إسرآئيل:31:17)