تشریح:
1۔ حضرت عمرؓ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ گو حضرت ابی بن کعب ؓ ہم سب سے زیادہ قرآن کریم کے ماہرقاری ہیں لیکن وہ بعض آیات ایسی بھی پڑھتے ہیں جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے مگر انھیں تخ کی خبر نہیں پہنچی۔
2۔ تخ کے اعتبار سے آیات کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔ ©تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہو چکے ہیں۔ ©جن کا حکم تو منسوخ ہے لیکن تلاوت باقی ہے۔ ©۔ جن کی تلاوت منسوخ لیکن حکم باقی ہے۔ ©قرآن کریم کا پیشتر حصہ محکم آیات پر مشتمل ہے یعنی ان کا حکم اور تلاوت دونوں باقی ہیں۔
3۔ حضرت عمرؓ کے فرمان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو، لیکن اس کی تمام باتیں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں، خطا اور لغزش ہر ایک عالم سے ممکن ہے۔ اللہ کے بندوں میں صرف انبیائے کرام ؑ ہی معصوم ہوتے ہیں جنھیں براہ راست اللہ تعالیٰ سے احکام ملتے ہیں۔ باقی رہے آئمہ دین اور محدثین عظام، ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے باوجود ان کی حیثیت حضرات انبیاء ؑ سے مختلف ہے۔ ان کی جو بات قرآن و حدیث کے موافق ہو، وہ سر آنکھوں پر اور جو بات قرآن و حدیث کے خلاف ہو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ ان بزرگوں کی بھی یہی تعلیم ہے۔ غلطی کا امکان ہر کسی سے ہے معصوم عن الخطا صرف انبیاء اور رسولوں کی جماعت ہے۔
4۔ کفار ومشرکین رسول اللہ ﷺ پر یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ یہ نبی بھی عجیب ہے۔ آج ایک کام کرنے کا حکم دیتا ہے، کل اسے سے منع کر دیتا ہے، اس اعتراض کے دور میں مذکورہ آیت نازل ہوئی کہ جب ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں تومصلحت وقت کے اعتبار سے لوگوں کی ہمت کے موافق پہلے حکم سے بہتر یا اس جیسا کوئی اور حکم نازل کر دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تحقیق کے مطابق قرآن کریم کی صرف پانچ آیات منسوخ ہیں۔ واللہ اعلم۔