تشریح:
1۔ خیبر کے یہودی حضرت عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا نجران کے عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کو فرزند الٰہی اور مکہ کے کافر ومشرک فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے۔ ان کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیات نازل فرمائی۔ (فتح الباری:210/8) آج بھی بہت سی قوموں میں اللہ تعالیٰ کے متعلق اس قسم کے غلط تصورات مختلف شکلوں میں موجود ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق صحیح ترین عقیدہ وہی ہے جو قرآن کریم نے سورہ اخلاص میں بیان کیا ہے۔
2۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنے کو گالی سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ اس عقیدے سے اللہ تعالیٰ کی توہین اور تنقیص ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ بچے کے لیے والدہ کا ہونا ضروری ہے جو اس کا حمل اٹھائے، پھر اسے جنم دے، نیز اس سے پہلے نکاح کا ہونا بھی ضروری ہے نکاح کرنے والے میں صنفی جذبات بھی ہونے چاہئیں تاکہ میاں بیوی کے ملاپ سے بچے کی پیدائش ممکن ہو۔ ان تمام باتوں سے اللہ پاک ہے۔ اس کی نہ بیوی ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے۔ وہ اکیلا ہے اور بیوی بچوں سے بے نیاز ہے۔
3۔ یہ قدسی حدیث ہے یعنی اسے رسول اللہ ﷺ رب العالمین سے بیان کرتے ہیں قدسی حدیث اور قرآن کریم میں حسب ذیل فرق ہے۔ ©قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں جبکہ حدیث قدسی میں معانی تو اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان معانی کو رسول اللہ ﷺ اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ ©قرآن کریم کی تلاوت عبادت ہے جبکہ حدیث قدسی کا پڑھنا عبادت شمار نہیں ہوتا بلکہ ایک عام اچھا عمل ہے۔ ©قرآن کریم کو نماز میں پڑھا جاتا ہے لیکن حدیث قدسی کو نماز میں پڑھنا درست نہیں۔ ©قرآن کریم کے لیے متواتر ہونا شرط ہے مگر حدیث کے ثبوت کے لیے تواتر شرط نہیں۔