تشریح:
1۔ تحویل قبلہ کا حکم آنے سے پہلے رسول اللہ ﷺ بڑی شدت سے اس امر کے منتظر تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دور ختم ہو چکا ہے اب بیت المقدس کی مرکزیت بھی ختم ہونی چاہیے اب تو اصل مرکز ابراہیمی کی طرف رخ کرنے کا وقت قریب کا لگا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس پس منظر کو بیان کیا گیا ہے یہ آیت اگرچہ تلاوت کے اعتبار سے متاخر ہے لیکن معنی کے لحاظ سے متقدم ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ آنے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور تمنا کرتے رہے کہ کاش! ان کا قبلہ مسجد حرام کو قراردیا جائے چنانچہ مذکورہ آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ ﷺ کی تمنا کو پورا کردیا گیا۔
2۔ واضح رہے کہ جن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بیت المقدس اور کعبے کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھی تھیں حضرت انس ؓ ان سب سے آخر میں فوت ہوئے۔ حضرت انس ؓ نے بصرے میں رہتے ہوئے اپنی عمر کےآخری حصے میں ارشاد فرمایا۔ آپ نے 103۔ سال عمر پائی 90 ہجری میں فوت ہوئے البتہ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ان کی وفات کے وقت زندہ تھے جو تحویل قبلہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ چونکہ انھوں نے ایک ہی قبلے کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کی تھیں لہٰذا وہ اس حدیث کا مصداق نہیں ہیں۔ واللہ اعلم۔