باب: جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: If one entered a mosque, one should offer two Rak'a (Tahayyat-al-Masjid) before sitting)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
450.
حضرت ابوقتادہ سلمی ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے قبل دو رکعت ضرور پرھے۔"
تشریح:
1۔اس حدیث کا پس منظر اس طرح ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:"تجھے بیٹھنے سے قبل دورکعت پڑھنے میں کیا رکاوٹ تھی؟"عرض کیا:میں نے آپ کو اور دیگرلوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا،اس بناپر میں بھی بیٹھ گیا۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دورکعت ضرور پڑھے۔( صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1654(714)) مصنف ابن ابی شیبہ(245/2) میں ہے کہ آپ نے فرمایا:"مساجد کو ان کا حق دو۔"عرض کیا گیا:ان کاحق کیا ہے؟ آپ نےفرمایا:"بیٹھنے سے پہلے دورکعت ادا کرنا۔"( فتح الباری 696/1۔)2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :ائمہ فتویٰ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذکورہ روایت میں امر نبوی استحباب پر محمول ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مسجد میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جارہا تھا تو آ پ نے اس سے فرمایا:"بیٹھ جا،تو نےدوسروں کو اذیت پہنچائی ہے۔"آپ نے اسے تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔اس سے معلوم ہوا کہ امرنبوی وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی دورکعت پڑھنے سے قبل بیٹھ جائے تو اس کی تلافی ضروری نہیں کیونکہ ان کا وقت فوت ہوگیا ہے۔لیکن صحیح موقف یہ ہے کہ بیٹھنے سے تحیۃ المسجد فوت نہیں ہوجاتا کیونکہ ایک دفعہ حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم نے دورکعت نماز پڑھ لی ہے؟"عرض کیا:نہیں۔آپ نے فرمایا:"کھڑے ہوجاؤ اور دورکعت نماز پڑھو۔"اس حدیث پر امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:"تحیۃ المسجد،ادائیگی سے قبل بیٹھ جانے سے فوت نہیں ہوتا۔"محب طبری نے کہا کہ بیٹھنے سے پہلے ادا کرنا وقت ِ فضیلت ہے اور بیٹھنے کے بعد اداکرنا وقت جواز۔بعض نے یہ کہا ہے کہ بیٹھنے سے پہلے ادا کا وقت ہے اور اس کے بعد وقت قضا۔( فتح الباری 696/1۔ ) واللہ اعلم۔3۔اوقات ممنوع میں سببی نماز ادا کی جاسکتی ہے لیکن مطلق نوافل ادا کرنے پر پابندی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ میں آکر بیٹھنے والے شخص کو دورکعت ادا کرنے کا حکم دیاتھا۔( صحیح البخاری الجمعۃ حدیث 930۔ ) حالانکہ خطبے کو خاموشی سے سننے کا حکم ہے۔دراصل اوقات ممنوعہ میں ادائیگی نماز کے متعلق احناف اور شوافع کا اختلاف ہے۔احناف اور روایت نہی کے عموم کے پیش نظر کہتے ہیں کہ ان اوقات میں تحیۃ المسجد کی بھی اجازت نہیں لیکن شوافع اس نہی کو عموم پر محمول نہیں کرتے بلکہ ان کے نزدیک امر نبوی کے عموم کے پیش نظر اوقات ممنوعہ میں بھی تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ جن نمازوں اور نوافل کے اسباب معلوم ہیں۔ان کے متعلق کوئی ممنوعہ میں بھی تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ جن نمازوں اور نوافل کے اسباب معلوم ہیں۔ان کے متعلق کوئی ممنوعہ وقت نہیں۔ تحیۃ المسجد کا سبب مسجد میں داخل ہونا ہے،لہذا اس سبب کے ہوتے ہوئے کسی وقت کی پابندی یا قید نہیں۔( فتح الباری 696/1۔)مختصر یہ ہے کہ اگر کوئی تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھ جائے تو اس سے تحیۃ المسجد ساقط نہیں ہوگا بلکہ اٹھ کر اسے ادا کرنا ہوگا اور اس کی ادائیگی کے لیے کوئی وقت ممنوع نہیں کیونکہ اس کا تعلق سببی نماز سے ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
440
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
444
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
444
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
444
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت ابوقتادہ سلمی ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے قبل دو رکعت ضرور پرھے۔"
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کا پس منظر اس طرح ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:"تجھے بیٹھنے سے قبل دورکعت پڑھنے میں کیا رکاوٹ تھی؟"عرض کیا:میں نے آپ کو اور دیگرلوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا،اس بناپر میں بھی بیٹھ گیا۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دورکعت ضرور پڑھے۔( صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1654(714)) مصنف ابن ابی شیبہ(245/2) میں ہے کہ آپ نے فرمایا:"مساجد کو ان کا حق دو۔"عرض کیا گیا:ان کاحق کیا ہے؟ آپ نےفرمایا:"بیٹھنے سے پہلے دورکعت ادا کرنا۔"( فتح الباری 696/1۔)2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :ائمہ فتویٰ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذکورہ روایت میں امر نبوی استحباب پر محمول ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ مسجد میں لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جارہا تھا تو آ پ نے اس سے فرمایا:"بیٹھ جا،تو نےدوسروں کو اذیت پہنچائی ہے۔"آپ نے اسے تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔اس سے معلوم ہوا کہ امرنبوی وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی دورکعت پڑھنے سے قبل بیٹھ جائے تو اس کی تلافی ضروری نہیں کیونکہ ان کا وقت فوت ہوگیا ہے۔لیکن صحیح موقف یہ ہے کہ بیٹھنے سے تحیۃ المسجد فوت نہیں ہوجاتا کیونکہ ایک دفعہ حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم نے دورکعت نماز پڑھ لی ہے؟"عرض کیا:نہیں۔آپ نے فرمایا:"کھڑے ہوجاؤ اور دورکعت نماز پڑھو۔"اس حدیث پر امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:"تحیۃ المسجد،ادائیگی سے قبل بیٹھ جانے سے فوت نہیں ہوتا۔"محب طبری نے کہا کہ بیٹھنے سے پہلے ادا کرنا وقت ِ فضیلت ہے اور بیٹھنے کے بعد اداکرنا وقت جواز۔بعض نے یہ کہا ہے کہ بیٹھنے سے پہلے ادا کا وقت ہے اور اس کے بعد وقت قضا۔( فتح الباری 696/1۔ ) واللہ اعلم۔3۔اوقات ممنوع میں سببی نماز ادا کی جاسکتی ہے لیکن مطلق نوافل ادا کرنے پر پابندی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ میں آکر بیٹھنے والے شخص کو دورکعت ادا کرنے کا حکم دیاتھا۔( صحیح البخاری الجمعۃ حدیث 930۔ ) حالانکہ خطبے کو خاموشی سے سننے کا حکم ہے۔دراصل اوقات ممنوعہ میں ادائیگی نماز کے متعلق احناف اور شوافع کا اختلاف ہے۔احناف اور روایت نہی کے عموم کے پیش نظر کہتے ہیں کہ ان اوقات میں تحیۃ المسجد کی بھی اجازت نہیں لیکن شوافع اس نہی کو عموم پر محمول نہیں کرتے بلکہ ان کے نزدیک امر نبوی کے عموم کے پیش نظر اوقات ممنوعہ میں بھی تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ جن نمازوں اور نوافل کے اسباب معلوم ہیں۔ان کے متعلق کوئی ممنوعہ میں بھی تحیۃ المسجد ادا کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ جن نمازوں اور نوافل کے اسباب معلوم ہیں۔ان کے متعلق کوئی ممنوعہ وقت نہیں۔ تحیۃ المسجد کا سبب مسجد میں داخل ہونا ہے،لہذا اس سبب کے ہوتے ہوئے کسی وقت کی پابندی یا قید نہیں۔( فتح الباری 696/1۔)مختصر یہ ہے کہ اگر کوئی تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھ جائے تو اس سے تحیۃ المسجد ساقط نہیں ہوگا بلکہ اٹھ کر اسے ادا کرنا ہوگا اور اس کی ادائیگی کے لیے کوئی وقت ممنوع نہیں کیونکہ اس کا تعلق سببی نماز سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے یہ خبر پہنچائی، انھوں نے عمرو بن سلیم زرقی کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوقتادہ سلمی ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔
حدیث حاشیہ:
مسجد میں آنے والا پہلے دورکعت نفل پڑھے، پھر بیٹھے۔ چاہے کوئی بھی وقت ہو اورچاہے امام جمعہ کا خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔ جامع ترمذی میں جابربن عبداللہ سے مروی ہے کہ بینما النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یوم الجمعۃ اذ جاءرجل فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصلیت قال لا قال قم فارکع قال ابوعیسی وہذاالحدیث حسن صحیح اخرجہ الجماعۃ وفی روایۃ اذجاءاحدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیہما رواہ احمد ومسلم وابوداؤد وفی روایۃ اذا جاءاحدکم یوم الجمعۃ وقد خرج الامام فلیصل رکعتین متفق علیہ کذا فی المنتقیٰ ( تحفۃ الاحوذی، ج 1، ص: 363 ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ سنا رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی آیا اور بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دورکعت پڑھ کر بیٹھو اوران دورکعتوں کو ہلکاکرکے پڑھو۔ ایک روایت میں فرمایاکہ جب بھی کوئی تم میں سے مسجد میں آئے اورامام خطبہ پڑھ رہا ہو چاہئیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو ہلکی رکعت پڑھ لے۔ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والعمل علی ہذا عند بعض اہل العلم وبہ یقول الشافعی واحمدو اسحاق وقال بعضہم اذا دخل والامام یخطب فانہ یجلس ولایصلی وہو قول سفیان الثوری واہل الکوفۃ والقول الاول اصح یعنی بعض اہل علم اورامام شافعی اورامام احمد اور اسحاق کا یہی فتویٰ ہے۔ مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حالت میں نماز نہ پڑھے بلکہ یوں ہی بیٹھ جائے۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے۔ مگرپہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے اورمنع کرنے والوں کا قول صحیح نہیں ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ ان احادیث صریحہ کی بناپر فقہائے محدثین اورامام شافعی وغیرہم کا یہی فتویٰ ہے کہ خواہ امام خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔ مگر مناسب ہے کہ مسجد میں آنے والا دورکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھے اور مستحب ہے کہ ان میں تخفیف کرے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آنے والے شخص کو جمعہ کے خطبہ کے دوران دورکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا اس کا نام سلیک تھا۔
موجودہ دورمیں بعض لوگوں کی عادت ہوگئی ہے کہ مسجد میں آتے ہی پہلے بیٹھ جاتے ہیں پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہیں جب کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ سنت یہ ہے کہ مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دورکعتیں پڑھے، پھر بیٹھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatada Al-Aslami (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If anyone of you enters a mosque, he should pray two Rakat before sitting."