تشریح:
1۔ تعمیر مسجد کی دوصورتیں ہیں: ©۔ مسجد کو شروع ہی سے تعمیر کیا جائے۔ ©۔ اس کی توسیع یا تجدید کی جائے۔ مذکورہ بالادونوں صورتوں میں بانی کو تعمیر مسجد کی فضیلت حاصل ہوگی۔اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے اسی طرح کا محل تیار کرے گا۔ یہاں ایک اشکال ہے کہ دیگر اعمال خیر کا اجر دس گنا ہوتا ہے۔ لیکن مسجد بنانے کا اجر اس کے مثل یا برابر کیوں ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں مثلیت سے زیادہ کی نفی نہیں، نیز ہر عمل کے اجر میں برابری تو عدل ہے اور کم وکیف میں زیادتی اللہ تعالیٰ کا محض فضل وکرم ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ایک عمدہ جواب دیا ہے کہ مسجد بنانے کی جزا میں گھر تو جنت میں ایک ہی ملے گا مگر وہ کیفیت میں اس دنیا کے گھر سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔ بعض اوقات دنیا میں بھی ایک گھر دوسرے ایک سوگھروں سے بھی زیادہ عالی شان اور پُر شکوہ ہوتا ہے۔ علامہ نووی ؒ نے فرمایا:ممکن ہے کہ اس گھر کی فضیلت جنت کے گھروں پر ایسی ہوجیسے دنیا میں مسجد کی فضیلت دنیا کے باقی گھروں پر ہوتی ہے۔ بہرحال جنت میں ملنے والا گھر بہت وسیع اور بہترین ہوگا اورمثلیت سے مراد مساوات من کل الوجوہ نہیں،نیز اس میں واضح اشارہ ہے کہ بانی کو جنت میں داخلہ ملے گا کیونکہ گھر بنانے سے مقصود اس میں رہائش رکھنا ہوتا ہے اوررہائش دخول جنت کے بعد ہوگی۔ (فتح الباري:706/1) 2۔ حضرت عثمان ؓ پر مسجد نبوی کی توسیع کے متعلق متعدد اعتراضات کیے گئے، مثلاً:اگر مسجد کی موجودہ صورت بہتر ہوتی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اس کے زیادہ حقدار تھے۔مسلمانوں کی اجازت کے بغیر مذکورہ توسیع بیت المال کے خزانے سے کی جارہی ہے جو درست نہیں۔ یہ کام اللہ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ محض نام ونمود اورشہرت پسندی کے پیش نظر کیاجارہا ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے ایک ہی مسجد نبوی سے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے: ©۔ میں نے یہ کام رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے کیا ہے، کیونکہ آپ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی اللہ کی رضا کے لیے مسجد تعمیر کرےگا تو اللہ اسے جنت میں اس کے ہم مثل گھر عطا فرمائے گا۔معلوم ہوا کہ جنت میں ہم مثل جزا لینے کے لیے مسجد بنانے کی اجازت ہے۔ ©۔ اس حدیث میں جنت کا مکان حاصل کرنے کی بشارت اس شخص کو دی گئی ہے جو خود تعمیر کرے۔ میں یہ بھی کام حصول جنت کے لیے کررہا ہوں۔ لہذا بیت المال سے مسجد کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے بھی آپ نے مسجد کے لیے قطعہ ارض خرید کر دیاتھا۔ ©۔ اس روایت میں ہے کہ جس نےرضائے الٰہی کے حصول کے لیے مسجد تعمیر کی تو اسے جنت میں اس کا مثل عطا کیا جائے گا۔ میں اسی عظیم مقصد کے کے لیے یہ کام کررہا ہوں۔ اس لیے تمھیں نیت پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں، تم میرے دل کی باتوں کو نہیں جانتے۔ الغرض حضرت عثمان ؓ نے ایک ہی حدیث سے تمام اعتراضات کا شافی جواب دے دیا۔علامہ ابن جوزی ؒ نے لکھا ہے کہ جو شخص مسجد بنواکر اس پر اپنا نام کندہ کرادیتا ہے وہ مخلص نہیں بلکہ نمودونمائش اور ریاکاری کا خوگر ہے، کیونکہ حدیث میں جس ثواب کی بشارت دی گئی ہے، اس میں للّٰہیت بنیادی شرط ہے۔ اگر کوئی مزدوری کے عوض مسجد تعمیر کرتا ہے تو وہ مذکورہ بشارت کا حقدار نہیں ہوگا، اگرچہ حدیث میں دی گئی بشارت کے علاوہ ثواب سے تومحروم نہیں کیا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ تیر کی وجہ سے تین آدمی جنت میں داخل ہوں گے :بنانے والا، چلانے والا اور اس کے لیے سامان مہیا کرنے والا۔ اس میں بنانے والے کےمتعلق وضاحت نہیں ہے کہ وہ مزدوری کےعوض بنائے یافی سبیل اللہ بناکرمجاہد کے حوالے کردے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی مملوکہ زمین کےٹکڑے کو مسجد کا درجہ دے دیتا ہے، پھر وہاں عمارت بنائے بغیر لوگ نماز ادا کرتے ہیں، یا کوئی تیار شد ہ عمارت کو مسجد کا درجہ دےدیتا ہے تو اسے بھی مذکورہ فضیلت حاصل ہوگی یا ہیں؟ظاہری الفاظ کے پیش نظر تو وہ اس فضیلت کا حق دار نہیں ہوگا، کیونکہ اس میں مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی لیکن اگر مقصود کو پیش نظر رکھا جائے تو ایسا شخص بھی مذکورہ ثواب سے محروم نہیں ہوگا۔ اسی طرح بنانے سے مراد خود تعمیر کرنے والا اور تعمیر کا حکم دینے والا دونوں ہی میں اور دونوں ہی بشارت مذکورہ کے حقدار ہیں۔ (فتح الباري:706/1)