تشریح:
1۔ سائل کا تعلق خوارج سے تھا جوشیخین (ابوبکر ؓ وعمرؓ) کی فضیلت کے قائل تھے لیکن (خَتَنَين) عثمان ؓ وعلیؓ کی تنقیص کرتے تھے۔
2۔ اس خارجی نے حضرت عثمان ؓ پر یہ اعتراض کیا کہ وہ غزوہ اُحد کے دن میدان جنگ سے بھاگ گئے تھے۔ حضرت ابن عمرؓ نے اس کا جواب دیا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف فرمادیا۔" (آل عمران:155/3) جب اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا ہے تو ایسے حالات میں انھیں ہدف ملامت یا نشانہ تنقید بنانے کا کیا معنی؟ اس کا مطلب ہے کہ تمھیں حضرت عثمان ؓ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی معافی پسند نہیں آئی۔
3۔ رہ گئے حضرت علی ؓ تو وہ منزل ومنزلت کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے بہت قریب تھے کیونکہ مسجد نبوی کے جنوبی جانب حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہؓ کے حجرے تھے۔ ان کے درمیان حضرت فاطمہ ؓ کا حجرہ تھا پھر ان کے پیچھے دیگر ازواج مطہرات کے حجرے تھے۔ اگررسول اللہ ﷺ سیدنا علی ؓ سے ناراض تھے تو انھیں رہنے کے لیے اپنےقریب جگہ کیوں دی؟ لہذا خوارج کا یہ اعتراض بدنیتی پر مبنی ہے اور ان کا قرآنی استدلال بھی بے موقع اور غیرموزوں ہے۔ ایسے لوگ بہت ہیں جو بے محل قرآنی آیات کو استعمال کرکے لوگوں کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ واللہ المستعان۔