تشریح:
1۔ حج کی تین قسمیں ہیں: الف۔ افراد: صرف حج کی نیت سے احرام باندھا جائے۔ ب۔ قرآن: حج وعمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرکے احرام باندھا جائے۔ ج۔ تمتع: اس میں بھی حج وعمرہ دونوں کی نیت ہوتی ہے لیکن پہلے صرف عمرہ کیا جاتا ہے، اس کے بعد آٹھ ذوالحج کو حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ حج قران اور حج تمتع میں ایک ہدی بھی قربانی دینا ہوتی ہے۔ حضرت عمران حج تمتع سے متعلق اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔
2۔ حضرت عمرؓحج تمتع سے منع کرتے تھے۔ اس کی وجہ اس کا حرام ہونا نہیں بلکہ ان کے پیش نظر یہ مصلحت تھی کہ لوگ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ ادا کرکے خانہ کعبہ کو چھوڑ کر نہ جائیں بلکہ حج اور عمرے کے لیے الگ الگ سفرکرکے برابر بیت اللہ میں آتے رہیں۔ چونکہ آپ کا یہ موقف کتاب وسنت کے خلاف تھا، اس لیے حضرت عمران بن حصین ؓ نے اس موقف کو ان کی ذاتی رائے قراردیا اور اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیے جو کسی خاص امام کی تقلید کو ضروری قرار دیتے ہیں، جب خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کی رائے مطلقاً قابل تسلیم نہیں تو دوسرے مجتہدین کس شمار میں ہیں؟ حالانکہ خود مجتہدین نے وصیت فرمائی ہے کہ کتاب وسنت کے خلاف ہماری رائے کو تسلیم نہ کیا جائے۔ واللہ المستعان۔