تشریح:
1۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجدوں میں شعر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:322) اس کی سند صحیح ہے۔ اس حکم امتناعی پر دیگر احادیث بی مشتمل ہیں۔ لیکن ان کی صحت کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے، تاہم اس قسم کی متعارض احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں ایسے اشعار پڑھنے منع ہیں جواسلام اوراہل اسلام کے خلاف ہوں یا دور جاہلیت کی یادگار، عشقیہ مضامین اور فحش گوئی پر مشتمل ہوں۔ البتہ ایسے اشعار پڑھنے کی اجازت ہے جو درج بالا عیوب سے پاک ہوں اور ان میں اسلام کی خوبیوں یا ان میں مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب دیاگیا ہو۔ بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ حکم امتناعی اس صورت میں ہے کہ مسجد کوغزل خانہ بنادیا جائے یا تمام اہل مسجد شعر گوئی میں مصروف ہوجائیں۔ (فتح الباري:710/1) بہرحال امام بخاری ؒ جمہور کی تائید کرتے ہوئے تفصیل کے قائل ہیں، کیونکہ اشعارکلام کا حصہ ہیں۔ جس طرح کلام اچھا بُرا ہوتا ہے اسی طرح اشعار بھی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ بُرے اشعار کا مسجد کے باہر پڑھنا بھی درست نہیں، ایسے اشعار کومسجد میں پڑھنا ان کی قباحت میں مزید اضافے کا باعث ہے، البتہ اچھے اشعار جو اسلامی مضامین پر مشتمل ہوں، مسجد کے باہر اور اندر پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ 2۔ مذکورہ حدیث میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ حضرت حسان ؓ مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اشعار پڑھتے تھے، لیکن صحیح بخاری میں ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان ؓ کو فرمایا تھا:’’اے حسان!میری طرف سے ان مشرکین کو جواب دو۔‘‘ (صحیح البخاری، الأدب، حدیث:6152) چنانچہ حضرت حسان ؓ نے مسجد میں ہی مشرکین کے ہجویہ کلام کا جواب دیاتھا۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ عنوان قائم کرتے وقت روایت کے دوسرے طرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ حضرت حسان کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے شہادت لینے کی اس لیے ضرورت پڑی کہ ایک دن حضرت حسان ؓ مسجد نبوی میں اشعار پڑھ رہے تھے، حضرت عمر ؓ کا وہاں سے گزرہوا تو انھوں نےآپ کو گھور کردیکھا اورناگواری کا اظہار فرمایا۔ حضرت حسان ؓ نےفوراً کہا کہ میں تو مسجد نبوی میں آپ سے زیادہ مرتنےوالی شخصیت کی موجودگی میں شعر پڑھا کرتا تھا۔ پھر آپ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرف التفات کرکے ان سے شہادت طلب کی۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3212) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ حضرت حسان ؓ کے لیے مسجد نبوی میں خود منبر رکھتے جس پر کھڑے ہوکر وہ مشرکین کی ہجو کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2846) ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ کے سامنے مندرجہ ذیل ارشاد نبوی ہو:’’تم میں سے کس کے پیٹ میں پیپ بھری ہوتو(یہ) اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کے پیٹ میں اشعار بھرے ہوں۔‘‘( صحیح البخاری الادب حدیث 6154۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بڑا محتاط عنوان قائم کیا ہے:‘’’مکروہ ہے کہ انسان کی طبیعت پر اشعار کا اس حد تک غلبہ ہوکر وہ اللہ کے ذکر، حصول علم اور تلاوت قرآن سے بھی غافل رہے۔‘‘