تشریح:
1۔ بعض روایات میں اس آیت کا سبب نزول ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ غزوہ اُحد میں رسول اللہ ﷺ کا اگلا دانت ٹوٹ گیا اور سرمبارک زخمی ہوگیا۔ آپ ﷺ اپنے چہرے سے خون صاف کرتے اور فرماتے: "وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کاسرزخمی کردیا اور دانت توڑدیا، حالانکہ وہ انھیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا۔" تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم، الجھاد، حدیث:4645۔(1791))
2۔ ایک روایت میں وضاحت ہے کہ آپ نے جن نامور مشرکین کا نام لے کر بددعا کی وہ یہ ہیں: صفوان بن امیہ، ابوسفیان اور حارث بن ہشام۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3004) مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چند ہی روز گزرے تھے کہ جن مشرکین کے خلاف آپ نے بددعا کی تھی اللہ تعالیٰ نے انھیں آپ کے قدموں میں لا ڈالا اور اسلام کے جانباز سپاہی بنادیا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان سب کو دین اسلام کی طرف مائل کردیا۔ (مسند أحمد:104/2)
3۔ حافظ ا بن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ چوتھے شخص حضرت عمرو بن عاص تھے۔ (فتح الباري:284/8) ان حضرات کا مستقبل اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ حضرات حلقہ بگوش اسلام ہوں گے، اس لیے یہ آیت نازل فرما کر آپ کو بددعا کرنے سے روک دیاگیا۔ واللہ اعلم۔