تشریح:
1۔ بریرہ ؓ انصار کے کسی قبیلے کی لونڈی تھی اور حضرت عائشہ ؓ کے ہاں اس کا آنا جانا تھا بلکہ فارغ اوقات میں آپ کی خدمت کای کرتی تھی۔ جیسا کہ واقعہ افک سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت بریرہ ؓ کا 9 اوقیہ چاندی کی ادائیگی پر اپنے مالکوں سے آزادی کا تحریری معاہدہ ہوگیا۔ (صحیح البخاري، المکاتب، حدیث: 2563) جن میں چار اوقیہ انھوں نے یک مشت ادا کردیے اور باقی پانچ اوقیہ سال میں ایک اوقیہ کے حساب سے پانچ سال میں ادا کرنے تھے۔ (صحیح البخاري، المکاتب، حدیث: 2560) امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں برسر منبرخرید وفروخت کے مسائل کی تعلیم دی جاسکتی ہے، مسجد میں عقد بیع کا جواز ثابت کرنا قطعاً مقصود نہیں، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں بیان کیا ہے لیکن اس روایت میں رسول اللہ ﷺ نے برسرمنبر جن باتوں کا ذکر کیا ہے، ان میں بیع وشراء کا قطعاً کوئی ذکر نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے برسرمنبر جو ارشادات ہیں وہ بیع وشرا اورعتق وولاء کے قضیے کے بعد بیان ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر اسی گزشتہ معاملے کی طرف اشارہ کرکے مسئلے کی وضاحت فرمائی ہے، لہذا منبرپر اس واقعے کی طرف اشارہ کرنا گویا منبر پر اسے بیان کرنے کے مترادف ہے۔ 2۔ حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے اس کے متعدد طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ کے شیخ علی بن عبداللہ المدینی ؒ اس روایت کو اپنے چار شیوخ :حضرت سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید قطان، عبدالوہاب بن عبدالمجید اورجعفر بن عون سے بیان کرتے ہیں۔ یہ حضرات اپنے شیخ یحییٰ بن سعید انصاری سے بیان کرتے ہیں، نیز اس ضمن میں امام بخاری ؒ نے حضرت امام مالک ؒ کے طریق کا بھی حوالہ دیا ہے جو مرسل ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے منبر پر چڑھنے کا بھی ذکر نہیں ہے۔ اسی طریق کو آگے امام بخاری ؒ نے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔ (صحيح البخاري، المکاتب، حدیث: 2564) یحییٰ بن سعید قطان اورعبدالوہاب بن عبدالمجید کی سند بھی امام مالک ؒ طرح مرسل اور ذکر منبر کے بغیر ہے۔ جعفر بن عون کی سند اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں یحییٰ بن سعیدانصاری کے عمرہ سے سماع کی تصریح اور عمرہ کے حضرت عائشہ ؓ سے سماع کی بھی وضاحت موجود ہے۔ چونکہ حضرت سفیان بن عیینہ کی متصل روایت میں منبر کا تذکرہ تھا، اس لیے اسے اصل قرار دے کر متن میں لےلیا اور باقی اسناد کا بطور تائید حوالہ دے دیاگیا۔ (فتح الباري:713/1) نوٹ: اس حدیث سے متعلق دیگر مباحث کتاب المکاتب میں بیاں ہوں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔